خوشبو تیری نہیں پہچان سے جانے والی
یاد دل سے نہیں جی جان سے جانے والی
ہم کو آتی ہے یہ آواز مسلسل من سے
غم کی راحت نہیں نادان سے جانے والی
دکھ ہے قاتل کو ہمارے بھی بہت سا لیکن
سانس بخشی نہیں احسان سے جانے والی
دشت ہے ہجر کا آباد جو اپنے دم سے
شرط یہ بھی نہیں پیمان سے جانے والی
دوستو کچھ تو کرو میرے لئے اب تم بھی
دھوپ شب کی نہیں دالان سے جانے والی
جینا ہے ہم کو ہمیشہ سے سفر میں یونہی
یہ سزا اک نہیں تاوان سے جانے والی
کہہ دیا چپکے سے شاہد نے زمانے سے بھی
خوش گمانی نہیں نقصان سے جانے والی

0
2
62
دوستو کچھ تو کرو میرے لئے اب تم بھی

دھوپ شب کی نہیں دالان سے جانے والی

جینا ہے ہم کو ہمیشہ سے سفر میں یونہی

یہ سزا اک نہیں تاوان سے جانے والی

بہت اچھا کہا آپ ںے۔۔۔۔واہ

0
شکریہ صاحب

0