بعد مدت کے صندوق کھولا ہے آج |
اس کے خط دیکھے تو خوشبو آئی مجھے |
رنگ بکھر گئے ہیں مرے چار سُو |
چاپ ان قدموں کی دے سنائی مجھے |
پگلی کا لہجہ بیباک تھا راہ میں |
روکا جب اس نے تو شرم آئی مجھے |
اس کے پیار کے چشمے سوکھ گئے شاید |
اب تو مرے گھر کے باہر بھی آ گئی ریت |
دیکھنا نیند نہ آۓ گی اسے ساری رات |
وہ جس کی بھیگی آنکھوں میں سما گئی ریت |
دنیا کو تو حیرت میں ڈال گئی افری |
سارے جہاں کو اندر اپنے سما گئی ریت |
اپنے بچوں سے گزارش سنُو ہی نہیں دیکھو بھی میری طرف۔ دوسروں کے شاہکار کو سراہو ضرور مگر متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ آپ اپنا شاہکار تخلیق کرو اگر کسی نے کیا تو آپ بھی کر سکتے ہو۔ابوظہبی میں Louvre Museum میوذیم میں سکندر کا مجسمہ دیکھا تو احساس یوا ذندہ اور مردہ پتھراۓ انسان میں کیا فرق ہوتا ہے۔ ہم بولتے ہیں تو وہ چُپ چاپ ہمیں سُنتا ہے بولتا نہیں۔ چلیں چھوڑیں ویسے بھی وہ ہماری پھوپھی کا بیٹا بھی تو نہیں تھا۔ ہمیں اہنا جہاں خود آباد کرنا ہے۔ بقول اقبال رح : - نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی جناب عالی ہم تو مزدورں کی اولاد ہیں ہمیں تو ایسی کوئی سدَر بھی نہیں۔ ہمیں بڑی بڑی کشور کشائی کا انجام بھی پتہ چلا۔ اتنا جدید میوزیم لوگوں کی بھیڑ میں بالکل خاموشی کیوں؟ جی جی منہ بند ہیں پتھراۓ لوگ ! بس بس یہاں زیادہ زکر نہیں کرنا۔ میں نے فیس بک پہ ایک پیج دیکھا نکمے فارغ لوگ رنگدار چوزے فوٹو میں گننے لگے تھے مسلسل آٹھ دن سے۔۔۔ میں نے ایک موٹا سا رنگدار سا تبرہ تول کر لکھا پھر اسے مذید بولڈ بھی کر دیا اور پوسٹ کرنے کے بعد پیج ڈیلیٹ کر دیا تاکہ چوزے گننے والے مچھروں کی طرح حملہ