جب بھی اس کو آخری خط لکھنے بیٹھا |
چند سطروں کے بعد جب پہ چاہا |
تحریر ختم کروں فل سٹاپ کے ساتھ |
دھڑکن مگر دل کی تیز ہو جاتی ہے |
قلم بھی بےاختیار دوڑنے لگتا ہے |
افری میں دیوانگی میں مسکرا دیتا ہوں |
جب بھی دسمبر آیا |
تم نے چشن منایا |
پھر گئے دنوں کا |
جب حساب لگایا |
کچھ پاس نہیں تھا |
تھا سب کچھ پرایا |
چشمِ نم میری دلِ سوزاں دیکھتے |
کاش تم میرے غم کا طوفاں دیکھتے |
ہم تڑپتے ہیں جن کے لئے ہر گھڑی |
قرار آ ہی جاتا گر رُحِ تاباں دیکھتے |
غریب کو ملتی نہیں دو وقت کی روٹی |
رہبر ہمارے انداز اپنا شاہاناں دیکھتے |
خیال اپنی محبتوں کا |
ملال تیری بغاوتوں کا |
خیال کیسا ، ملال کیسا |
یہ سانپ سوچوں کا جال کیسا |
یہ چار جانب ہے بھیڑ کیسی |
تو افری تماشہ بن رہا ہے |
چلا جاؤں گا مجھے ڈھونڈتے رہنا |
میرے ہر شعر کو بس چُومتے رہنا |
بہار کا موسم لوٹے گا جب افری |
دینا آواز گلیوں میں گھومتے رہنا |
تیرے آنگن آیا کرے گی افری |
میری یاد کی خوشبو سونگھتے رہنا |
اپنے بچوں سے گزارش سنُو ہی نہیں دیکھو بھی میری طرف۔ دوسروں کے شاہکار کو سراہو ضرور مگر متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ آپ اپنا شاہکار تخلیق کرو اگر کسی نے کیا تو آپ بھی کر سکتے ہو۔ابوظہبی میں Louvre Museum میوذیم میں سکندر کا مجسمہ دیکھا تو احساس یوا ذندہ اور مردہ پتھراۓ انسان میں کیا فرق ہوتا ہے۔ ہم بولتے ہیں تو وہ چُپ چاپ ہمیں سُنتا ہے بولتا نہیں۔ چلیں چھوڑیں ویسے بھی وہ ہماری پھوپھی کا بیٹا بھی تو نہیں تھا۔ ہمیں اہنا جہاں خود آباد کرنا ہے۔ بقول اقبال رح : - نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی جناب عالی ہم تو مزدورں کی اولاد ہیں ہمیں تو ایسی کوئی سدَر بھی نہیں۔ ہمیں بڑی بڑی کشور کشائی کا انجام بھی پتہ چلا۔ اتنا جدید میوزیم لوگوں کی بھیڑ میں بالکل خاموشی کیوں؟ جی جی منہ بند ہیں پتھراۓ لوگ ! بس بس یہاں زیادہ زکر نہیں کرنا۔ میں نے فیس بک پہ ایک پیج دیکھا نکمے فارغ لوگ رنگدار چوزے فوٹو میں گننے لگے تھے مسلسل آٹھ دن سے۔۔۔ میں نے ایک موٹا سا رنگدار سا تبرہ تول کر لکھا پھر اسے مذید بولڈ بھی کر دیا اور پوسٹ کرنے کے بعد پیج ڈیلیٹ کر دیا تاکہ چوزے گننے والے مچھروں کی طرح حملہ