Circle Image

mohammad ifrahim butt

@ifrahim

mohammadifrahimbut@ TIkTOk

تکتا ہوں فلک ہر دُعا کے بعد
رب کریم عطا من و سلوی ہو جاۓ
پیری نے بھی ہے ضعف کر دیا
سعئ خام سے سلسلہ ہو جاۓ

0
2
ہر تنگی سے وسعت اس ہی اعتبار میں ہے
ہر خیر چھپی ہوئی توبہ استغفار میں ہے

0
3
فاحتہ جو رہتی ہے پڑوس کے شجر پر
خاموش رہتی دن بھر صیاد سے ڈر کر
رات کی تاریکی میں کیوں بولتی ہے
شاید رہتی موذی سانپ سے ڈر کر

0
4
اپنے لئے یا، وطن، قوم و ملت کے لئے
کس کے لئے مانگوں دُعا شب بیداری میں

0
1
آدم زادہ ہوں میں
رہ میں لا مکاں کی
مسلسل چلتا ہوا
دریا نار صحرا
ستم ہوتا ہوا
لشکر سب ہوا کا

0
2
پھر سے کرو گھر میں شجر کاری افری
سوکھے پیڑ ہوں تو گھونسلے نہیں ہوتے

0
5
آتی ہے آندھی چلو زرا دیکھتے ہیں
رکھ کر در پر اپنا دِیّا دیکھتے ہیں
خواب زمین پہ ہمیں اترنا ہے ساتھی
روکتا ہے کیسے ہمیں دریا دیکھتے ہیں
تاریکی سے ابھی دامن چھُڑانا ہے
سورج کو بنا کر ہم نوا دیکھتے ہیں

0
2
مانگوں دعا مقبول مرے اللہ ہو جاۓ
مصطفی کی ہو نظر تو کرم واللہ ہو جاۓ
کانوں میں گونجتی رہتی ہیں حرم کی بانگیں
ازنِ حاضری پھر سے عطا للہ ہو جاۓ
گھبرا گیا ہوں گردشِ دوراں سے یا نبی
قلبِ پریشاں کو عارض کا تجلا ہو جاۓ

0
3
پردیسی میں اک جوگی
گھوموں میں نگری نگری
گیتوں میں ہے درد رچا
آہو بکا ہے دل کی صدا
رہبرو! میرے غریبوں کو
روٹی دو ، سر کی چھت دو

0
10
کتابِ زندگی کو پڑھتے جاتے ہیں
بہت غریب ورق کھلتے جاتے ہیں

0
4
بارش برس رہی ہے
بجلی کڑک رہی ہے
سوکھی رمل سے مل کر
ہر بوند اچھل رہی ہے
ہو گئے شجر ضعیفوں جیسے
ہولے سے مل رہے ہیں

0
5
دلگی دا کمال عشق
اویس و بلال عشق
وسیا رُوح وچ خمار
ہے حسن جمال عشق
یار سر کٹاؤے
مڑ کرے سوال عشق

0
8
وفا، ادا، کتاب میں لکھے ہوۓ
یہ ہیں تمام دام بچھے ہوۓ

0
4
زور آور اتنے پاگل ہو گئے ہیں
کوچہ و بازار جنگل ہو گئے ہیں
لہو شہیدوں کا ہم سے پوچھتا ہے
کیوں نشان منزل کے اوجھل ہو گئے ہیں
میرا چوکیدار ہی مار ڈالے گا مجھے
جبر کے سلسلے مسلسل ہو گئے ہیں

0
10
کیسا ہوتا ہے بھلا غیر دیاروں کا سفر
کر کے دیکھو کبھی دریا کے کناروں کا سفر
بیٹھ جاتے ہیں راہ میں کسی امید پر افری
ہوتا نہیں طے مسلسل کبھی بیماروں کا سفر
مولا تُو ہی اب دے آسانیاں بھی
آسماں میں الجھا رہتا ہے ستاروں کا سفر

0
16
نکلے وہ دبے پاؤں کہ خبر تک نہ ہوئی
حائل تھیں ایسی دیواریں بلایا نہ گیا
بہت لوریاں سنائیں مجبور ماں نے مگر
روتی ماں سے بھوکے بچوں کو سلایا نہ گیا
در بند رہیں تو دیواریں بولتی ہیں افری
اندر کی تنہائی سے بھی درد چھپایا نہ گیا

0
11
فقط صفر ہی اعداد کا پیش امام ہے
وہی ابتدا بھی انتہا کا مقام ہے

0
3
بے سبب تو نہیں روتا کوئی
کیسے پھر چین سے سوتا کوئی
ہر روز ہی ہنگامہ ہے بپا
کہیں امن کا مرکز ہوتا کوئی

0
3
جانا ہے گاؤں یونہی بے خبر جانا
گلیاں بھولیں پھر بھی ہے مگر جانا
کتنی مدت سے در ہی بند ہیں سارے
افری اپنے ہی گھر ہو کر بے گھر جانا

0
8
تیرگی ہے مگر اتنا تُو یارا رکھنا
منزل تک ضامن کوئی تارا رکھنا

0
7
ایتھے مسافر ہاں خبرے کد ٹُر جاناں
مٹی دے بندے ہاں آخر کُھر جاناں

0
6
بھاری مشینوں کا شور ہے میرے گھر کے باہر
دُنیا ابھی تک اُجڑ کے بس رہی ہے افری

0
8
ساز و ساماں ہے میرا افسانہ جُدا
ساغر و ساقی ، ہے میرا پیمانہ جُدا
بادہ و مینا بھی ہے میرا خمار جُدا
مظرابِ دل سے دھڑکن کا ترانہ جُدا

0
8
محمدﷺ ہمارے نبی ہیں
انہوں نے اپنے نورسے ہدایت بخشی
اے پیارے!
مکہ سے اٹھ کر ان کا نور مدینہ تک چھا گیا
جو ان کی نماز/سلام پڑھے اوران کی سیرت پہ عمل کرے
خوش نصیب ہے وہ جو شخص ان کے ساۓ میں چلتا ہے

0
8
کل رات جو چاند کو دیکھا
میں نے پھر دل میں یہی سوچا
خود کو ہی کیوں نہ بھُول جائیں ہم
تیرے بعد کیسے عید منائیں ہم

0
14
خیال اپنی محبتوں کا
ملال تیری بغاوتوں کا
خیال کیسا ، ملال کیسا
یہ سانپ سوچوں کا جال کیسا
یہ چار جانب ہے بھیڑ کیسی
تو افری تماشہ بن رہا ہے

0
6
تو قریب ہوتا ہے
یہ دل میرا روتا ہے
خبر ہے ملنے کے بعد
ہمیں پھر بچھڑنا ہے
کفِ افسوس ملنا ہے
جب پھُول کھلیں گے

0
3
چہرے پہ میرے
کیوں نظریں جماۓ ہو
ہاں کچھ بھی نہیں ہے
ہاں تلخئ حالات کے سوا
کبھی روز گار کا غم
کبھی دُنیا میں آنے کا الم

0
11
اس سے پہلے کہ تم کچھ بیان کرو
زرا اپنی حالت کا دھیان کرو
حالے آنکھوں کے گواہ رتجگے کے
اپنے چہرے سے مسخ یہ نشان کرو

0
11
یاد تو وہ بہت آۓ گا لیکن
کچھ حالات نہ ہوں گے بس میں
کُھو جائیں گے تحویلوں میں
سارے وعدے ساری قسمیں
ملنے اور بچھڑنے کو افری
بس اس دُنیا کی ریت کہوں گا

0
16
کہہ دے نہیں ملتا کوئی دوستِ باوفا لوگو
بے کار ہے عشق و محبت کا چرچا لوگو

0
6
ہر شعر میں نے جس کے تھا نام کیا
اس نے ہی مجھے گاؤں میں بدنام کیا

0
7
اتر جاؤں افری میں دریا کی صورت
تری آنکھوں میں گہرا بحر دیکھتا ہوں

0
9
دانائی خوف ربّ اعلی ہے
یہ حکمِ محمد مصطفے ہے

0
8
اب دل کو رکھو اپنے کُشادہ لوگو
یاں جو بھی ملا وہی دل تنگ ملا ہے
آخر میں رکھوں کس سے مروت کی توقع
جو یار ہے ہاتھوں میں لئے سنگ ملا ہے

7
سوختہ جانوں پہ تم نے ستم کیا
کاٹیں زبانیں سروں کو قلم کیا

0
6
تیری چاہت کا بھی مجھ کو احساس ہے
اپنی حالت سے بھی میں پریشان ہوں
مجھ کو معلوم ہے تیری تکمیل میں
کتنی راتوں کو میں جاگتا ہی رہا
ایک سایہ ہے تو تیری خواہش میں
بھاگتا ہی رہا ، بھاگتا ہی رہا

0
17
دل کسی سے لگانا نہیں اچھا
ہو جاؤ گے بدنام زمانہ نہیں اچھا
اتر جاؤ گے دل سےگر جاؤ گے نظر سے
یونہی تیرا ہم سے دور جانا نہیں اچھا
تیرے ہیں تیرے رہیں گے ہم
دیکھ یوں طعنے دے کر ستانا نہیں اچھا

0
14
افری کیسے ہو گی تسکین سرابوں سے
جان بلب ہوں منہ میں امرت ٹپکاؤ زرا

0
5
چلا جاؤں گا مجھے ڈھونڈتے رہنا
میرے ہر شعر کو بس چُومتے رہنا
بہار کا موسم لوٹے گا جب افری
دینا آواز گلیوں میں گھومتے رہنا
تیرے آنگن آیا کرے گی افری
میری یاد کی خوشبو سونگھتے رہنا

0
9
وہ قرب کے لمحات اگر بھول بھی جائیں
برسوں ہمیں تڑپاۓ گی احساس کی خوشبو

8
رہا اے خدا سدا تیرے ہی کرم کا سہارا
سوا تیرے کوئی غفور نہیں رحیم نہیں

0
6
کچھ آسان نہیں لیکن یہ ضروری ہے افری
سامنے اپنی خواہشوں کے دیوار ہو جانا

0
6
پوچھو نہ دوستو! دل پہ ہمارے کیا گزری
اپنے آپ میں ہم مسکراتے رہتے ہیں

0
4
سپنے ہی آنکھوں میں سجایا کرو
تلخ ہوتی ہے حقیقت افری

0
4
دے کر حوصلہ ساتھ چلنے کا افری
چلا میں تو وہ میرا ہمقدم نہ ہوا

0
7
افری میری آواز کی جو رسائی ہوئی
اس کی ساری تدبیری دھری رہ گئی

0
8
افری پھر گر کر سنبھل ہی گیا
بھللا کوئی ہے جو بُرا مجھ سا

0
5
افری پھر سے بچھڑ جانا نئی بات نہیں
ایسے ہی دکھڑوں میں ساری عمر گزاری ہے

0
6
میں پہلوں پہل جد گھروں باہر سی ٹریا
استاد حکیماں مڑ کے ایو پٹی پڑھائی مینوں
مَن اُہو جہیڑی گل دماغ تیرے وچ آئی”
مینوں اُس ویلے ماں میری دا سخن چیتے آیا
“پُترا منِّیں دل دی بھاویں ہوۓ جگ پرایا”
میں چھڈ کے دماغ دا تول ترکڑا افری

20
تم نے جب سروں کو قلم کیا
اہلِ دل نے بھی پختہ عزم کیا

0
9
اکھر کالے پڑھ اکھاں پتھر ہوئیاں
درد کھلارہ ہر پاسے اکثر رویاں
کوئی نال نہ لے ٹریا گٹھڑی اپنی
سدراں پلا چھڈا قبروں باہر ہوئیاں

0
8
پردیسی پرندوں کی طرح خلاؤں میں رہتے ہیں
ہجرت کی پیش تمام سزاؤں میں رہتے ہیں

0
9
اچھے ہیں لوگ اپنے گاؤں میں رہتے ہیں
پیپل کی کوئی نیم کی چھاؤں میں رہتے ہیں
دُنیا جہاں کی کمائی سے بہتر ہے افری
لوگ جو اپنی ماؤں کے پاؤں میں رہتے ہیں

0
10
ایک دن آخر بچھڑنا ہوتا ہے
بپھرے دریا کو اترنا ہوتا ہے

0
11
کیا دل چاہتا ہے کیا آنکھ ہی کہتی ہے
سارے بدن کی تھکاوٹ آنکھ میں رہتی ہے
دل کی مستیاں ہیں معصوم بچے کی طرح
دُکھ بھرے منظر دیکھ کر آنکھ ہی روتی ہے

0
9
یاد ہے میں کہتا تھا محبت نہ کرنا
ظالم ہیں لوگ تیرے شہر کے تمام
سیم و زر کے ہیں یہ مارے تمام
رسم و رواجوں کی ہیں اونچی دیواریں
وقت گلی سے گزرتے پاگل کی طرح
ہماری سُنی ان سُنی کرتا نکل جاتا ہے

0
15
بڑھاپے میں انسان اصل میں مہان ہوتا ہے
افری پرانا تجربہ ہی نئی تعمیر کی بنیان ہوتا ہے

0
8
کہنا اُسے اپنی ذات میں اتنا کمال رکھے
جذبہ نہیں اپنا دل بھی تھوڑا سنبھال رکھے
مزدور کی بیٹی بدون جہیز کے بکتی نہیں
کہنا اُسے قاضئ شہر سے میرا سوال رکھے
سوچو ایوانوں میں بیٹھے اندھے گونگے بہرے لوگو
دل کھولتا ہے کوئی جو سامنے وطن کی مثال رکھے

0
15
میری تحریر میں پنہاں اک سرگوشی رہتی ہے
ہاتھ کی زبان بن کر قلم کی نوک بولتی رہتی ہے
میں روز اپنی نئی باتیں لکھتا رہتا ہوں افری
میری ڈائری ہر سال لباس بدلتی رہتی ہے

0
8
میرے نوحہ کو بے سبب مت جان افری
کانٹا بھی اپنے اندر راز دبا رکھتا ہے

0
8
سوال خود ہی طالبِ جواب رہتا ہے
سوال مت سمجھنا لاجواب ہوتا ہے

0
9
دل تو میں نے ہی دیا تھا افری
جاتے آنکھیں بھی چُرا لے گیا وہ

0
7
دل تو میں نے ہی دیا تھا افری
جاتے آنکھیں بھی چُرا لے گیا وہ

0
5
دل میرا جد دُنیا تُوں گھبراندا اے
مینوں مکھڑا یاد حضور دا آندا اے
یار نیں اپنے رنگ چ رنگیا افری
دور نہ پل آکھیں تیں جاندا اے

0
8
دسمبر میں بدن سُلگا شام کے وقت
نہیں ساتھ آیا جو چلتا شام کے وقت

0
8
زندگی ہو کہ موت ہو کمال ہے
خود ہی سب سے بڑا سوال ہے
الست میں رب کا
دُنیا سے واپسی کا ،
ماں کی کوکھ میں پیار کا
دُنیا میں جینے کا

0
11
پھوٹ پڑیں مشرق سے کرنیں
حال بنا ماضی کا فسانہ
گونجا مستقبل کا ترانہ
بھیجے ہیں احباب نے تحفے
اٹے پڑے ہیں میز کے کونے
دلہن بنی ہوئی ہیں راہیں

0
29
کل کیا ہوا تھا عادت ہے بھُول جاتا ہوں
سوچ کی زمین میں تازہ پھُول اُگاتا ہوں

0
9
ہجر نے بانٹا ہے فاصلوں میں
وصل کی رُت راس نہیں آتی
نیند نے سیکھا ہے تم سے افری
سوچ میں ہے پاس نہیں آتی

0
8
درد کو میرے بیان ملے
اجڑے کو کوئی مکان ملے
بیج یقین کا اُگتا نہیں
جس مٹی میں گمان ملے
تپتے ہوۓ صحرا کا سفر
سایہ نہ رہ کے نشان ملے

0
12
ٹوٹے لفظوں کو بیان ملے
میری ہجرت کو مکان ملے

0
9
دکھے ان دکھے گناہ ہیں شرمندگی کے لیٔے
لگی ہے نگاہ تیری طرف معافی طلبی کے لیٔے
جہاں کی دویٔی تو دل سے دور کر دے میرے مولا
سر میرا جھکے تو تیری ہی بندگی کے لیٔے
ہے مالکِِ جہاں ایسی رحمت عطا کر دے
دل ہو آمادہ لا الہ الا اللہ کی تسبیح کے لیٔے

0
12
دل کی تسلی ہوتا بھروسہ میری ماں کا
بہتے آنسو روکتا بوسہ میری ماں کا
ماں سے بچھڑے ایک زمانہ ہوا افری
بُھولا نہیں میں کبھی چہرہ میری ماں کا

0
10
کتنے جذبوں سے ہوں سر شار خدا خیر کرے
نہال چمن کا ہو شجرِ سایۂ دار خدا خیر کرے
میری قوتِ گویائی تو چھین لی غمِ روزگار نے
ضرغام کی صورت زندہ رہیں گے افکار خدا خیر کرے

0
7
ہجرت کی ناقدری ، شہیدوں سے بے وفائی
کہنہ نظام کی یہ آکاس بیل پال رکھی ہیں
کتنی جلدی قیمت لگتی ہے یہاں ضمیروں کی
حرمِ اُمرا میں جمھوری رکھیل پال رکھی ہے

15
مُوت سے پہلے ہیں حائل کتنے پُل صراط
کیسے پار کروں مولا عطا کر مجھے بساط
ٹوٹتا رہتا ہے میرا مٹی کا یہ بدن
مرہم رکھتا ہے کوئی لگاتا ہے کوئی مِلاط
حاوی ہے شر اس کے سارے وجود پر
چل رہا ہے ماحول پہ اک محاط

0
8
بچپن وچ سُنیا ویکھیا سی
جن کسے نُوں جد چمڑ جاندا سی
بندے اندر وڑ ظلم بڑے ٹہاندا سی
فیر اک بابا دم پاون لئی آ جاندا سی
او پڑھ کلام جن نُوں بہت ڈراندا سی
جن معافی منگ کے جان چھڑاندا سی

10
تیرگی میں وہ بنا مشعل ہے
گیدڑوں میں کھڑا شیر افضل ہے
قدرت دیتی ہے اُس کو ہی منصب
بھیڑ میں ہوتا جو امثل ہے

15
لوگوں کے اضطراب سے ڈر لگتا ہے
اے راہبر تیرے انتخاب سے ڈر لگتا ہے
جو چاہے تاویلیں تُو پیش کرتا رہے
قاضی تیرے احتساب سے ڈر لگتا ہے

0
13
اپنا یقین گنوا بیٹھے
اپنا جہگا لہوا بیٹھے
پُرکھاں نال دھکہ کیتا
دین ایمان بھُلا بیٹھے
سب اُپر پلید آ بیٹھے
اجیا پاک ستان بنا بیٹھے

0
10
اپنا یقین کتھے گنوا بیٹھے
اپنا جہگا لہوا بیٹھے

0
10
تمای عمرے پردیسی لوک بُلاندے رہے
افری کُوڑ ناں بولیں اساں ہاں خانہ بدوش
رُوح دا سفر جاری الست توں برزخ تک
حشر وچ منگن گے اپنا مکاں خانہ بدوش

0
10
سوہنے آقا دا مدینہ بڑا سوہنا
میں وی ویکھاں جے بُلاوے کدی سوہنا
حسنِ آقا دی کوئی نہ مثال وے
چَن کردا اے ریساں جِدے نال وے
اَساں تیرے بِنا کسیدا نہ ہَونا
میں وی ویکھاں جے بُلاوے کدی سوہنا

0
13
بازو کٹا تھا عدو نے شہہ رَگ بھی کاٹ دی
گھر بچے گا کیسے؟ اب تُو سَڑّک بھی کاٹ دی

0
10
مداری کا بندر ڈفلی کے اِشاروں پہ ناچتا ہے
خرد تماشائی ہے جنوں انگاروں پہ ناچتا ہے

0
11
شعلہ بھڑکنے والا ہے بجھتے شراروں سے
دریا نکلنے والا ہے اپنے کناروں سے
نغمۂ آذادی سُن رہا ہوں میدانوں سے
دیکھا بلند جنوں کا شعلہ پہاڑوں سے
جنگل میں پھر خوف کا عالم طاری ہے
شیر نکل آۓ ہیں اپنی کچھاروں سے

0
15
کُل جہاناں رزق پُچاویں
رازق مالک آپ کہاویں
عیب بندے دے پردا پاویں
واحد تے ستار کہاویں
جِس ٹہنی تے کنڈے ہووَّن
اس ٹہنی تے پھُل کھلاویں

0
15
مُوت سے پہلے ہیں کتنے پُل صراط
سوچتا ہوں ہے بھلا اتنی بساط

0
10
گر دنیا میں وطن کی توقیر چاہیے
ہرشخص ہونا منکر ونکیر چاہیے

0
10
تو من و سلوی دے ، دُعائیں بھی قبول کر
نظر تو آ زرا دلوں میں بھی حلول کر

1
18
چمن اُجاڑہ ہے گلاب چھینے ہیں
وطن کو لُوٹا تم نے خواب چھینے ہیں
وطن کے ہی لئے سب گردنیں کٹیں
تمھاری طمع نے شباب چھینے ہیں
بھٹکا دیا قافلے کو راہ میں تم نے
طریق چھینے ہیں ، اداب چھینے ہیں

0
13
زمینِ ذہن پہ اُگتے ہیں کانٹے سوال سے
دُکھ ہوتی ہیں خوشیاں بے گھری کے خیال سے
گُل و بُلبل کے نغمے میں کیا جانوں افری
نہ کبھی فرصت ہی ملی روٹی سے دال سے

0
13
عشق کیا ، بیماری کیوں ہے
آنکھوں کی ، خماری کیوں ہے
ہجر کا صدمہ ہوتا ہے کیا
وصل میں پھر دلداری کیوں ہے
باغ میں کوئل روتی ہے کیوں
درد کی اتنی ماری کیوں ہے

0
15
دل دی منیا کر
دل دی کریا کر
باقی سب ہے کُوڑ
اے تیرا میرا
رکھ اللہ کُو یاد
ضد نہیں کریا کر

0
10
ماں کا ہنستا چہرہ دیکھ کر میں افری
درد سارے ملال بھول جاتا ہوں

0
6
خیالوں سے جب پیاروں کے گیت لکھتا ہوں
میں بیٹھ کر بنجاروں کے گیت سنتا ہوں

0
8
ابنِ آدم ہوں خطائیں ساتھ پلتی ہیں
حق بیانی پہ سزائیں ساتھ ملتی ہیں
ہر مسافت میں سایۂ سر پہ رہتا ہے
میری ماں کی دُعائیں ساتھ چلتی ہیں
ٹھہرتا نہیں کوئی تنہا شجر کے نیچے
سُنا ہے صحرا میں بلائیں ساتھ رہتی ہیں

0
14
جب کسی نے کہیں بھی دیئے گل کئیے
سوچا دیکھا پھر ہنس کر ہم چل دیئے
لکھا کتاب میں سوکھے پھول دیکھ کر
کیا ہوئی دوستی ہاں وہ جو دل دیئے
کمرے میں بند تھا کتابوں کے ساتھ
در ہوا نے بجایا تو گھر سے نکل دیئے

0
10
تعلیمی نظام سے شاقی ہوں
بنتے ہیں غلام انسان نہیں

0
8
عروج دیکھ کے سارے زوال بھول گئے
چلے تھے ہنس کی جو، اپنی چال بھول گئے
اندھیری رات میں روشن کیا تھا جس نے سفر
ہم ایک جگنو کا کسبِ کمال بھول گئے
وہ لوگ بھی تھے، جو رشتوں کو جوڑ دیتے تھے
ہم اپنے عہد کی روشن مثال بھول گئے

0
12
کیسی کیسی قُربانی دی کتنے رنگ سجاۓ
پھر بھی ہم کو راس نہ آیا جہلم تیرا پانی

0
7
قاضی القضا تیرا ارادہ کیا ہے
دیس میں حق گو بے لبادہ کیا ہے
تنگ ہوئی زندگی جینے کےلئے
زندگی ذلت سے زیادہ کیا ہے

10
کتنے ہمایوں ہیں دھرتی نے دیکھے
تخت پہ بیٹھے سقہ نظام رہے

0
14
سلام ان پر جنھوں نے سنتِ سجاد زندہ کی
سلام ان پر جنھوں نے کربلا کی یاد تازہ کی
سلام ان پر کہ جو ختمِ نبوت کے تھے شیدائی
سلام ان پر کہ جن کی جرآت رندانہ کام آئی
سلام ان پر جنھوں نے مشعلیں حق کی جلائی ہیں
سلام ان پر جنھوں نے گولیاں سینوں پہ کھائی ہیں

34
اپنی محرو می کا یوں ازالہ کیا کرو
کارِ جہاں میں محمد کا حوالہ لیا کرو
قابلِ تقلید ہے حیاتِ میرے نبی کی
حکم الہی ہے قران کا مطالعہ کیا کرو
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ
صلو علی النبی سے لطف دوبالا کیا کرو

0
21
گھر میں اگر تُو میں کی تکرار رہتی ہے
سوچ انفرادی مانو کہ بیمار رہتی ہے

0
9
قید اک مدت سے کہف میں ہوں
جی میں ماضی کی گرفت میں ہوں
بُت کتنے سجا رکھے ہیں تم نے
میں تو ایفاۓ الست میں ہوں
ہر روز نئے معرکے کا ہے سامنا
میں جنگِ دست بدست میں ہوں

0
20
لہجہ تلخ ہے تجربات کا امین
دیکھ نہ بھلے میری بات سمجھ
سفر میں نفق بھی آتے ہیں افری
تُو جاری ظلمت کو رات نہ سمجھ
پھر لوٹ جائیں گے گھر دیکھنا
پرائی چھت اپنی شاملات نہ سمجھ

0
9
ہے محمد کی دُنیا محمد کا نظام
دل میں محمد زباں پہ محمد کا نام
دُنیا کو ضرورت رہے گی
محمد امین ہیں محمد سدا سلام

0
15
وچھوڑے دا دکھ
بہن ماں جائی
بُہتی چان والی
ویر دی تانگ ہوندی
ویر باپ ورگے ہوندے
بہن ماں وانگ ہوندی

0
21
پھر چتر رچایا تماشا ہے
یوسف پہ فریبِ زلیخا ہے
زباں بندی کرکےُہنستا ہے
کہنے کو قاضی مسیحا ہے
میرے وجدان کا پرتو ہے
میرے باہر جو اجالا ہے

0
13
روا یہ جبر جتنا بڑھتا جاۓ گا
تمھارا قد بھی یونہی گھٹتا جاۓ گا

0
12
حسن سے تجھے وفا کی امید افری
یہ تو گرگٹ ہے رنگ بدلتا ہو گا پل پل

9
چہرے سے مرے اُڑ رہی ہیں ہوائیاں
افری امتحان نہیں لگتا دجال آ گیا ہے

14
شہر چھوڑ آیا ہوں تو روتے ہو تم
دمِ رخصت ملاتے ہاتھ نہ چھوڑا ہوتا

11
آکھاں کدی رجدیاں نہی
ٹھڈ دے پڑھولے بھردے نہی

16
ہڈی ویکھ کے کُتے نہیں جر دے
آنکھاں دے پڑھولے نہیں بھر دے

0
13
اے میرے فرزندِ ارجمند
زندگی میں ہو اتنا عقلمند
شقاوت اور سعادت میں
ہدایت اور ضلالت میں
رہِ صواب و ناصواب میں
حقیقت اور خواب میں

16
خود فریبی کے حصار سے نکل
میری انار کلی دیوار سے نکل
آنکھ ہے درد سے بہتی ہے تُو
جسم، رُوح ،عقل خمار سے نکل

0
11
وہ اگر میرا ہمسفر ہوتا
اتنا نہ سفر مختصر ہوتا
چند سکوں کی بات ہے ورنہ
میں بھی لوگوں میں معتبر ہوتا
میں بھی اگر اپنے شہر میں ہوتا
شام ڈھلے کوئی منتظر ہوتا

0
28
مولا تو رحمت کر ،صبرِ جمیل دے
عطا حکمت کر، سوچ کی سبیل دے
تیری ذات باعث رُشد و ہدایت ہے
ہاں عافیت دے ، اپنی امان میں رکھ
تُو رزق دے ، اپنے دھیان میں رکھ

16
اہلِ شہر جب ہوں نفرتوں پہ مائل
ہم بے گھر رہے بس ہجرتوں پہ مائل

0
12
رحمتِ رب پانے کا رستہ ہے
ہر تسبیحِ پروردگار صدقہ ہے
“و ہی حمد کا سزاوار” صدقہ ہے
لا الہ الا اللہ صدقہ ہے
اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے
حکم نیکی کا دینا صدقہ ہے

0
14
بنجر زمیں میں دیدہ ور پیدا نہیں ہوتا
وحشی بدن ہو تو روح کا زور نہیں چلتا
دیکھتا ہے وہ حقارت کی نظر سے مگر
طفل موسی پر فرعون کا زور نہیں چلتا

0
13
ما ضی دا دکھ نہی حال دا دکھ
میرا دکھ افری کمال دا دکھ
ہتھ تے ہتھ رکھ کے بیٹھا ہیں
ہونا ہے کل سوال دا دکھ

0
10
اپنا کہہ کر بلاؤ تو جانیں
فاصلہ دل سے مٹاؤ تو جانیں
میرا حال چلو مت پوچھو
اپنی داستاں سناؤ تو جانیں
صحرا نشینوں کی تشنہ لبی کا عالم
ربِ کریم ابر برساؤ تو جانیں

0
10
چاہنے والے ستا کر نہیں ملتے
ہو کہاں کیوں آ کر نہیں ملتے
تعلق ترازو میں نہ تولنا افری
اپنوں سے تمغے سجا کر نہیں ملتے

0
10
ریت بھر گیٔی آنکھوں میں
نیند نہیں آتی راتوں میں
اے ماں! لوٹ آؤ اب
نرم گداز بانہوں میں لے کر
پھرپیار کی لوری سناؤ مجھے
پھر پیار کا امرت پلاؤ مجھے

0
14
زندگی مسلسل ایک آزمائش ہے
مرد کی شہرت و عورت سے
عورت کی مال و دولت سے
دولت کی نار کی شدت سے

0
6
دعوۓ ایمانی ہے مگر بُت سنبھال رکھے ہیں
کعبۂ سوچ میں اساف ہُبل پال رکھے ہیں
کہیں ہیں نائلہ و مناف کئی لات منات ہیں
عمرو لحمیوں نے کتنے عزی ڈھال رکھے ہیں
یاد رکھنا جب کوئی ابرہہ گھر گرانے اۓ گا
پھر تمہیں اللہ کا لشکر بچانے آۓ گا

0
12
اے قاضئ تیرا فیصلہ زہر آلود ہے
بدن کو ہی نہیں رُوح کو بھی مار دیتا ہے

0
13
زرا سمجھنا کچھ سمجھانا ہے
کردار بھی تیرا آئینہ ہے

0
9
میرے ملک میں کردار قتل ہوتے ہیں
ذہن جتنے بھی ہیں بیدار قتل ہوتے ہیں
کالی پٹی بندھی ہے قانون کی آنکھ پر
حبھی تو حق کے طرفدار قتل ہوتے ہیں

0
11
سوچنا نیا میرا اسلوب ہے
اللہ کو بندے سے کیا مطلوب ہے
صدقِ دل سے توحید کا اقرار ہونا
شیریں زباں ہونا نرم گفتار ہونا

0
12
درِ مصطفے سے تیری دوری
جہاں میں ہے رسوائی کا سبب
ابلیس کے پھیلاۓ جال تمام
اذن اللہ کا ہے اچھائی کا سبب

11
رہتے ہیں اوروں سے فاصلے پر
زندگی کے سفر میں چلتے ہوۓ
ساۓ میں خوف کے پلتے ہوۓ
اک دوجے کے قدموں کی آہٹ سے
ان دکھے خوف سے یا راحت سے
افری منزل کی جانب چلتے ہوۓ

0
13
امام الخطباء
اعظم الفصحاء
عظيم البلاغة
نعمت پروردگار
جان قربان اُن پر
خاتم النبیین ہیں

0
17
جنون ، شوق ،جوش اور جذبہ
کبھی پابندِ سلاسل نہیں ہوتا
یوسف بھی زنداں میں ڈالے گئے
جبر کا موسم تو مسلسل نہیں ہوتا
یقینِ ابراہیم سےآگ گلزار ہوئی
کسی حال مومن بیکل نہیں ہوتا

0
16
ہے ازل سے ابد تک جاری
یہ سلسلہ عناد و فساد کا
دروغ گوئی رشی کی دشمن
تکبر ہے علم کا بڑا دشمن
صبر کا ناشکرا بڑا دشمن

0
13
سمجھنے کے لئے پوچھنا چاہئے
علم نہیں ہے تو سیکھنا چاہئے
بات لمبی کرنا ، دیوانگی ہوگی
خموشی کو حکمت سمجھنا چاہئے
چشم و زبان کی بے محل آذادی
رُوح کے لئے قیدخانہ سمجھنا چاہئے

0
17
ٹیبل تے رکھ کے قلم دواتاں رو پیناں واں
سُن کے فلسطین دیاں چیکاں رو پیناں واں
میں اپنی درد کہانی کتھوں شروع کراں افری
ویکھ کے شہیداں دیاں لاشاں رو پیناں واں
جنگلی لوگاں نیں یا تاجراں اے جنگ چھیڑی
عجب فرق یایا اے ذاتاں پاتاں رو پیناں واں

0
18
رات کی تاریکی میں ، تارے فلک کے
زمیں پہ جُگنو ، جاگتی آنکھوں میں سپنے
سب محنتی انسان، افری چمکتے ہیں

0
15
افری چلو سرِ راہ دھرنا دے کر
شہرِ بے مہر میں سُرمہ بیچتے ہیں
اپنے کئے پہ کوئی نادم بھی نہیں
بے ضمیر مرتبے دیکھتے ہیں
پوچھا تحریریں پڑھ کر دیواروں کی
لوگ کیا شہر میں ایسا ہی سوچتے ہیں

0
14
پردیس بھی ہے ایک غریب خانہ
ہر کوئی سُناتا ہے اپنا ہی فسانہ
محدب عدسوں کا لباس پہنتے ہیں
لوگ جب بھی گھر سے نکلتے ہیں
شکلیں بدلتی ، شاہکار بدلتے ہیں
مڑ کر دیکھنا لوگ کئی بار بدلتے ہیں

0
17
چاندنی رات اور پھیلا ہوا صحرا
فلک پہ چاند مرے جیسا تنہا
ریت گنگنی اور یخت بھی
کھڑا سامنے “گَوّ” کا درخت بھی
ڈٹا ہے شاخوں سے بھرا ہوا
خاموش مگر جیسے ہو آسیب زدہ

0
14
پاکستان آج ایک میچ پھر کیا جیتا ہے
احمد نے خوشی سےگھر سر پہ اُٹھا رکھا ہے
ہر پاکستانی کا جذبہ یقینا ایسا ہو گا
انا پرستوں نے ملک کر تباہ رکھا ہے
انگلی کے اشارے پہ ہٹاۓ جاتے ہیں
مہکتے ہوۓ چمن کو جنگل بنا رکھا ہے

0
10
لفظوں کی سلائی سے ، خیالات کی بُنّت
میری ردا کے رنگوں میں ، جذبات کی بُنّت
دھیمی زرا کر دیں شِکنیں اس کے ماتھے کی
جھریاں چہرے کی ہوتی ہیں حادثات کی بُنّت
بیگانگی یوں ختم ہونے والی نہیں
رشتوں کی مضبوطی میں، ملاقات کی بُنت

0
25
پڑھ کر میکالے فرنگی کے پرانےا افکار میں
مقید ہوں آج بھی سوچوں کے حصار میں
جل رہا ہے تن بدن احساس کی آگ میں
لگا گیا وہ مردود تعلیم کو کس “بھاگ” میں
محکوموں کو بس ذہنی غلام بنایا جاۓ
بھُلا دو سب انگریزی نظام پڑھایا جاۓ

0
27
پوچھا ہے تو سُن لو، کمال کیا ہے؟
ہوں علم و عمل جمع، احتمال کیا ہے؟
مفلس کی آنکھوں میں پڑھا نہیں کیا؟
کیوں اس سے کرتے ہو، سوال کیا ہے؟
ہو جس قوم میں اخلاقی گراؤٹ پیدا
اس کو بھلا اور ، زوال کیا ہے؟

0
11
اس رنگ برنگی دُنیا میں کبھی جب
تم گِھر جاؤ حسرتوں کی بھیڑ میں
خوشیوں کی بے قابو ہوتی ہوئی
موجوں کی تلاطم خیز سونامی میں
وہ عظمتِ کا منارہ دیکھ لینا
ماں کو یاد کر لینا دُعا کے ساتھ

0
16
دکھاں دا ہر پاسے ویکھ کھلارا
اکھاں رو رو انّیاں ہوئیاں
فیر میں اکھاں منگن لئی ٹُریا
سوچ آئی ہنس کے بہہ گیا میں
افری کی لبھدا پھرناں ہیں اڑیا

0
18
قلم بکا ہوا، زبانیں خریدی گئیں
ممبر، مسجد ،اذانیں خریدی گئیں
جھوٹ بک رہا ہے سب چار سُو
تاجر خریدے، دُکانیں خریدی گئیں
دل سہمے ، نظر میں خوف ہے
لوگ، ایمان ، داستانیں خریدی گئیں

0
18
صبح سویرےگھرکے سامنے
سورج کی سنہری کرنوں میں
نیلگوں جھیل کے پانی میں
منظر دیکھو زرا دریچے سے
خوشبو آ رہی ہے باغیچے سے
حمد وثناء کا وِردّد جاری ہے

0
11
گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہُوا
جہاں سے باندھ کے رختِ سفر روانہ ہُوا
قیودِ شام و سحَر میں بسر تو کی لیکن
نظامِ کُہنۂ عالم سے آشنا نہ ہُوا
فرشتے بزمِ رسالتؐ میں لے گئے مجھ کو
حضورِ آیۂ رحمتؐ میں لے گئے مجھ کو

0
11
دل کے بہلاؤے کو امن کا منظر سجاتا ہوں
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کے لشکر بناتا ہوں
متحد اقوام عالم خطابت سیاست کے لئے
مناظر دیکھ کر کشمیر وفلسطین کے ڈر جاتا ہوں
بہت حسرت سے دیکھتی ہیں مجھے دہلیز پہ بیٹھی آنکھیں
ناکام تلاشِ معاش میں جب لوٹ کے گھر جاتا ہوں

0
13
رہبر اپنے جھوٹے چلاکو نیں
باقی سر تے قائم ہلاکو نیں
لوکی کس در جا حال سُناؤن
ترکڑی والے وی ڈاکو نیں

0
14
کندے سے اتاری تھی کدال صبح ہو گئی
ابھی بدن تھا تھکن سے نڈھال صبح ہو گئی
رات سنتے رہے شیخ جی کا واعظ افری
آۓ جب لبوں پہ سوال صبح ہو گئی
ہجر کی رات دہلیز سے لگ کر رونا اس کا
ہمیں بھی تھا بچھڑنے کا ملال صبح ہو گئی

0
20
کردار اے رہبر دیکھ زرا
ہر شخص اتنا بدظن کیوں ہے
جذبے کی کمی ہے سوچو زرا
کمزور اپنا بندھن کیوں ہے
افری ہے چہکنے پہ پہرہ کیوں
اُجڑہ ہوا یہ گلشن کیوں ہے

0
15
اے ٹوپی تیری اُچے شملے کس کم دے
تیری اے ٹور تمغے کِلّےکس کم دے
وچ دل تیرے رب نہ وَسّیا تاں ہی تیتھوں رُسیا
لمبی داڑھی سب چِلے کس کم دے

0
11
مل کر دیوار و در ہِلا دو
بوسیدہ ہوا ہے گھر گِرا دو
یہاں کوئی خیر نہیں باقی
سایہ ہے تو جن کو جلا دو
رکھو پھر سے اک بنیاد نئی
سارے در ہی اونچے بنا دو

33
خلقِ خدا اُٹھے گی سب ہی تہ و بالا ہو جاۓ گا
مسندِ امرآ الٹے گی سب کا منہ کالا ہو جاۓ گا
گھر کو گرا رہے ہیں اندر سے باہر سے بھی افری
خبر کیا تھی رات میں اپنا رکھوالا سو جاۓ گا

21
باقی ہو ہمت تو لاچار بدلتے ہیں
زندہ لوگ ہو ں تو افکار بدلتے ہیں
پاکستان کہانی سُن کر سوچا میں نے
مردہ قوم کے بس مختار بدلتے ہیں

0
12
بانسری دا درد سن کے میں مڑ جا کھلویا
کر فرمائشاں وکھو وکھ بانسریاں وجوایاں
عجب نہ کسے خریدی نہ سنن والا آیا
انج لگا جیویں درداں دے سانجے مک گئے
روٹی پیچھے لگ کے لوکی کتھے لُک گئے
بانسری تے بجوان والے دا درد کون وٹاوے

0
98
وریاں توں شوقی پالدے سی
مہمان پرندے سنھبالدے سی
نکے نکے بچے ہتھی لے کے
پیار نال ہواچ اچھالدےسی
چاہ رہندا انہاں دی اُڈاری دا
سب نوں کہندے وکھالدے سی

0
54
باہر نہ کُڑیے مار تو چہاڑُو
ہونج نی اَڑّیے اندر دا کوڑا
جے تیرا دلبر تینوں تکدا ناہی
بھن چھڈ رنگلا کچ دا چوڑا
شیشے اُتے جمیا کھُکھل کہٹا
اینجے کنداں چھاڑی جانویں

0
33
اونچے عمارتوں جیسے لگتے ہیں کھوکھلے لوگ
شہرِ بے آئین میں رہتے ہیں کھوکھلے لوگ
ہنس کے میں الزام اپنے سر لیتا ہوں
بحث پہ آمادہ رہتے ہیں کھوکھلے لوگ
ڈھونڈتا ہوں شاید کوئی راہ نکل آۓ
منظر میں چھاۓ رہتے ہیں کھوکھلے لوگ

0
43
شیلف پہ مٹی سے اٹی وہ پرانی ڈائری
بے ارادہ جو اٹھا کےکھول لی میں نے
ہاتھ پھیرا پھر سینے سے لگائی لی میں نے
کچھ دیر یونہی آنکھیں موندھ لی میں نے
پھر جب پھونک سے مٹی ہٹائی تو ایسا لگا
افری وقت جیسے کچھ دیر تھا رُک سا گیا

0
33
رشتوںں میں پہلی سی گرمی نہ رہی
سچی دلوں میں پہلی سی نرمی نہ رہی
دیوار اٹھا دی ہے میرے چاروں طرف
در ختم کیا پہلی سی کھڑکی نہ رہی
ناپید ہوۓ اب وہ حیا کے پیکر
شرمیلی تخیل کی لڑکی نہ رہی

4
76
میرے بعد مری آوازیں سُنا کریں گے لوگ
افری ساتھ دعا کے افسوس بھی کریں گے لوگ

0
2
81
We bear a secret, deep within
A pain we lock away and hide
All hearts, with grief, do brim
But sorrow we do not abide
For the heartache caused by another
We put on a brave and fearless guise

30
"
The world is changing, day by day
New walls rise, old ones decay
People's hearts grow hard and cold
In this world of politics old
Gone are the days of honesty

30
تارے دامن میں بھرنے ہیں
چاند بھی گھر لے آنا ہے
رات چھت پہ بیٹھ کر
ہسنا بھی ہے مجھے رونا بھی
اُسے سُننا بھی ہے کہنا بھی
افری یہ جو تعلق بن گیا ہے

0
38
تمھاری یاد بھی حجابوں میں رہی
گلاب دوستی کتابوں میں رہی

0
80
رحمتوں میں لپٹی تھی قرینے کی بارش
یاد بہت آئے گی مدینے کی بارش
زائر لوٹ رہے تھے دامن پھیلا کر
یثرب میں ہوتی ہے خزینے کی بارش
افری گر کے تجھے اُٹھنا آ ہی گیا آخر
رازِ حیات بتا گئی مدینے کی بارش

0
62
روک
بیٹھا ایویں سوچی پے گیا ہاں
جیوں میں راہ توں لہہ گیا ہاں
چار چوفیرے چہاتی پائی میں
ہر شے ٹردی نظری اوے
چن تارے گہیڑے بھردے

0
60
بعد مدت کے صندوق کھولا ہے آج
اس کے خط دیکھے تو خوشبو آئی مجھے
رنگ بکھر گئے ہیں مرے چار سُو
چاپ ان قدموں کی دے سنائی مجھے
پگلی کا لہجہ بیباک تھا راہ میں
روکا جب اس نے تو شرم آئی مجھے

0
50
مٹی دی مٹھی بھر کے مٹی نیں مٹی اُتے پائی
مٹی روۓ مٹی ہسے مٹی رَل مٹی وچ سمائی
مٹی دا باوا مٹی دا کوٹھا مٹی دا سنسار
مٹی دے کھوگو گھوڑے مٹی نیں مٹی ہی کمائی
مٹی ووہٹی مٹی لاڑہا مٹی دا ہویا وہیا سارا
مٹی جانجی مٹی ڈولی مٹی دے لے ٹرے کہار

0
97
محمد جیا سخی تے نہ سلطان ہوندا
سہاڈے جئے فقیراں دا نقصان ہوندا

0
115
چلو گے تو نکلے گی سبیل دیکھ آیا ہوں
رہ زندگی میں کئی سنگِ میل دیکھ آیا ہوں
نگہ بلند ہے تُو بھی کَمنّد ساتھ رکھ افری
اُٹھا دی جاتی ہے رہ میں فصیل دیکھ آیا ہوں
تو میرا مشکل کُشّا کوئی نہیں سوا تیرے
ربِِ کریم جہاں کے وکیل دیکھ آیا ہوں

64
خود کو تلاش کیا ماضی کی تحریروں میں
یادوں کی گٹھڑی میں پرانی تصویروں میں
پرکھوں نے دی قربانی غلامی کا طوق اتاریں
پاؤں تو آج بھی جکڑے ہیں کالی زنجیروں میں
میرے درد کا درماں کون کرے گا افری
کیا رکھا ہے سیاسی باسی تقریروں میں

3
90
صحرا بارش خاموشی اور تنہا میں
افری پھر جی بھر کے تنہا رویا میں
خوشبو آئی مٹی کی سوچا میں نے
تنہا یادِِ وطن میں جی بھر کے رویا میں
یادیں ابھرتی کونپلیں ہوں جیسے تازہ
اپنے دکھتے بدن کو دبا کر رویا میں

1
66
پَر لگ جائیں مجھے پرندے کی طرح
آذاد اڑوں دلکش نظارے دیکھوں
نفرت کی دنیا سے بہت دور پرے
کرتے الفت ہی لوگ سارے دیکھوں
ننھی چڑیا چونچ میں پانی والی
خواہش ہے بجھتے انگارے دیکھوں

79
ہسنے نہیں دیتیں مجھے رونے نہیں دیتیں
کیسی ہیں یہ سکھیاں کچھ ہونے نہیں دیتیں
جاگتی رہتی ہیں افری یہ آنکھیں میری
پاگل ہیں کوئی خواب پرونے نہیں دیتیں
تپتے ہوۓ صحرا میں یہ ابلے پیروں کے
تلوؤں میں منزلیں کانٹے چھبونے نہیں دیتیں

1
82
مردہ ضمیر سیاست ہیں یہ ظالم لوگ
روز بتاتے عبادت ہیں یہ ظالم لوگ
دینِ شریفاں کو سب اپنانے والے
جھوٹ بناتے صداقت ہیں یہ ظالم لوگ

17
گر میں ہنسوں تو روتی ہیں آنکھیں
درد کی بھیدی ہوتی ہیں آنکھیں

37
اس کے پیار کے چشمے سوکھ گئے شاید
اب تو مرے گھر کے باہر بھی آ گئی ریت
دیکھنا نیند نہ آۓ گی اسے ساری رات
وہ جس کی بھیگی آنکھوں میں سما گئی ریت
دنیا کو تو حیرت میں ڈال گئی افری
سارے جہاں کو اندر اپنے سما گئی ریت

50
روح دُکھ کی دوا مانگتی ہے
آپ کے در کی ہوا مانگتی ہے

55
عملاں دے دفتر کُھلنے انہاں رکھی اکھ
چنگا ماڑا لکھدے قلم ہے ملکاں ہتھ
لا إله الا اللہ دا دَم بھردا جا
الله اكبر دی تُو گواہی دے یارا
سبحان اللہ سبحان الله پڑھدا جا
افری حمد اللہ سچے دی ہی تُو کر

2
89
حائل تھے بہت مسئلے آغاز سے پہلے
کٹے ہوۓ پرَ تھے مرے پرواز سے پہلے
مشکل تھا بہت پھیلے ہوۓ صحرا کا رستہ
پستی تھی بہت دیکھے ہوۓ افراز سے پہلے
لینا تو چھپا ہجر کے دل سوز لمحے
دینا تو دبا دکھ زرا ایجاز سے پہلے

2
110
روز نئی دیوار اٹھا دی جاتی ہے
بولنے والے کی گردن اُڑا دی جاتی ہے
اتنے سادہ بھی تو نہیں تھے لوگ یہاں
کیسی دوا ہے جو پلا دی جاتی ہے
درد کی کیسے ہو دوا لوگو زرا سوچو
بات سیاست میں الجھا دی جاتی ہے

2
73
میرے قلب و نظر
تیری ہی یاد کے رہ گزر
ہوا ہے میرے چار سو
تیری ہی خوشبو سے معطر
توُ نے تو سب کچھ دیا
اپنے فیض سے مگر

2
81
مولا من اترے سلویَُ بھی اترے
حاکم جابر ہیں موسی بھی اترے

47
تاریخ جد گل کردی اے
سلمان دی حامی بھردی اے
تانگ سچے در دی اے
وکنا پیندا اے سجنو
یار دے پیاراں وچ
نام دسدا عبد اللہ

1
71
غافلا اٹھ حمد رب سچے دی کر
کڈ پلیدی دل دی اللہ اللہ کر

57
ہیں چاند بونے اپنے سورج اُگانے ہیں
ہے فصل کاٹنی تارے گھر لے جانے ہیں

0
58
رہنا زمین پہ ہے یا آسماں میں رہنا ہے
بس ہمیں تو یونہی اک امتحاں میں رہنا ہے
مولا طالبِ کرم ہے تیرا خطا کار افری
بس جہاں بھی رہیں تیری اماں میں رہنا ہے

60
تیرگئ شب سے مجھے ڈریا نہ کرو
جگنو ہے اک دیکھو ہتھیلی پہ رکھا ہوا

1
55
زِیر کر دےیا پھر زَبر کر دے
وہ جسے چاہے معتبر کر دے

1
56
کالےاکھر پڑھ پڑھ اَکھاں پتھر ہویاں
درد کھلارہ ہر پاسے اکثر رویاں

1
72
اپنے بچوں سے گزارش   سنُو ہی نہیں دیکھو بھی میری طرف۔ دوسروں کے شاہکار کو سراہو ضرور مگر متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ آپ اپنا شاہکار تخلیق کرو اگر کسی نے کیا تو آپ بھی کر سکتے ہو۔ابوظہبی میں Louvre Museum  میوذیم میں سکندر کا مجسمہ دیکھا تو احساس یوا ذندہ اور مردہ پتھراۓ انسان میں کیا فرق ہوتا ہے۔ ہم بولتے ہیں تو وہ چُپ چاپ ہمیں سُنتا ہے بولتا نہیں۔ چلیں  چھوڑیں ویسے بھی وہ ہماری پھوپھی کا بیٹا بھی تو نہیں تھا۔ ہمیں اہنا جہاں خود آباد کرنا ہے۔ بقول اقبال رح : - نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی جناب عالی ہم تو مزدورں کی اولاد ہیں ہمیں تو ایسی کوئی سدَر بھی نہیں۔  ہمیں بڑی بڑی کشور کشائی کا انجام بھی پتہ چلا۔ اتنا جدید میوزیم لوگوں کی بھیڑ میں بالکل خاموشی کیوں؟ جی جی منہ بند ہیں پتھراۓ لوگ ! بس بس یہاں زیادہ زکر نہیں کرنا۔ میں نے فیس بک پہ ایک پیج دیکھا نکمے فارغ لوگ رنگدار چوزے فوٹو میں گننے لگے تھے مسلسل آٹھ دن سے۔۔۔ میں نے ایک موٹا سا رنگدار سا تبرہ تول کر لکھا پھر اسے مذید بولڈ بھی کر دیا اور پوسٹ کرنے کے بعد پیج ڈیلیٹ کر دیا تاکہ چوزے گننے والے مچھروں کی طرح حملہ

47