Circle Image

mohammad ifrahim butt

@ifrahim

mohammadifrahimbut@ TIkTOk

برکت خاموش رہنے سے ملتی نہیں
حکمت ہے وقت پر ہی اظہار کریں

0
ہر موسم تصویر کروں گا
خالی کاغذ ہاتھ میں رکھ کر
خاصہ کو واقعات میں دبائے
تنہائی کے رشتے میں بیٹھا
خط کا مضمون سوچ رہا ہوں
مجھے تم سے کیا وعدہ کیا تھا

0
ایسا بھی نہیں ہے کہ محبت نہیں آتی
آتی ہے مگر اس میں تجارت نہیں آتی
میں عشق کے دو چار سخن اور نہ کہہ لوں
جب تک میری سوچوں میں سیاست نہیں آتی
اس کوچہ بےمہر کی پھر ٹھانی ہے دل نے
جس کوچے سے جاں کویی سلامت نہیں آتی

0
1
کوئی ملتی نہیں مثال ہمیں
نظر آتا ہے جو کمال ہمیں
دیکھتے ہیں جہاں بھی رنگ اُدھر
نظر آۓ تیرا جمال ہمیں
یاد آتے ہیں جب وہ خواب بھلے
سُنائی دیتی ہے کچھ دھمال ہمیں

0
1
حقیقت سے آنکھیں جو ملتی نہیں
وہی خواب ہیں جو بدلتے نہیں
چراغوں کی لَو میں ہے عکس فنا
یہ زندہ ہیں، پھر بھی تو جلتے نہیں
تمنّا کی صورت ہے چاند کی رات
مگر دل کے ارمان کھلتے نہیں

0
1
تیرگی چھٹ نہ سکی، میں جو مچل جاؤں گا
روشنی بن کے میں پھر خود ہی نکل جاؤں گا
پھر سے وہ زخم ملے ہیں، جو چھپا بھی نہ سکوں
پھر سے میں درد کی دہلیز پہ جل جاؤں گا
اک نظر تم جو مجھے ڈھونڈنے آ جاؤ گے
خود کو بھولا ہوا میں پھر سے سنبھل جاؤں گا

0
8
کیا فرق ہے گر رہنے والے ننگے ہیں
اس شہر میں انسان بھی تو اندھے ہیں

0
2
مردہ روحیں، زندہ لاشے ناچ رہے ہیں
بھوکے ہاتھوں میں تھامے کاسے ناچ رہے ہیں

0
3
نفرت سے دل کو سیراب نہ کر افری
سوکھا مثلِ شجر بے ثمر مر جاۓ گا

0
4
بات ساری نقطۂ تحقیق میں ہے
قدر خالق کی چھپی تخلیق میں ہے

0
7
تیری زُلفاں دیاں ٹُہراں
دل تے لاندیاں مُہراں
چل پل دو پل اے جینا
چنگیاں کد نیں اے کھُوراں

0
6
چاند سا چہرہ ، آنچل میں تاروں کی دمک
چمکی ہے دھرتی اس کے آ جانے کے بعد

0
3
تم ہی تو گستاخ بنا رہے ہو جانم
پیاس بجھا میری تسکین ہو جاۓ افری

0
4
مانتا ہوں پردیسی کی کہیں قبر تو ہو گی
کوئی لحد، مرقد اور مزار نہ ہو گا

0
3
اردو کی جنتری میں الجھا رہا ہوں میں
وقت کے قابو میں نہ تاریخ، مورخہ

0
5
کیا بتاؤں بسر کیسے وہ رات کی
لہر اُٹھی دل میں بس ہجر اور ساتھ کی
فاصلہ تو ہے پر دل میں دوری نہیں
دل میں خواہش ہے ہر گھڑی رات کی
آنکھ سے اشک بہتے رہے بے خبر
چاہ باقی ہے دل میں تری بات کی

0
7
عجیب ہے چڑھا کر جفا کی ٹکٹکی پر
اتارا اس نے سزا کے ہی بغیر مجھے

0
3
آنکھ سے اکثر آنسو برس جاتے ہیں
کان آواز کو بھی ترس جاتے ہیں

0
3
میرے حصے کی نیند بھی چُرا کر
افری بڑے چین سے سویا وہ

0
4
میں سمندر کنارے بیٹھ کر
کاغذ کی کشتیاں چلاتا رہا
روشنی کی طلب میں افری
دیئے جلا کر میں بہاتا رہا
لہروں کے دوش پر تماشا
کچھ کشتیاں ڈوبتی رہیں

0
4
ہے افری محبت بھی ہوشیار لومڑی
کہیں سے بھی شکار ڈھونڈھ لاتی ہے

0
5
کہتا ہوں دل میں اترنے کا طریقہ آجاۓ
چاہتا ہوں بات کرنے کا سلیقہ آجاۓ

0
5
کوئی آواز دیتا ہے اُسے تصویر میں ڈھالوں
مجسم خواب میں آۓ تو تعبیر میں ڈھالوں
چُنے ہیں الفاظ احتیاط کے بعد افری
گلوں میں تولوں اُسے تحریر میں ڈھالوں

0
5
یقین سینے میں میراث میرے بابا کی
گھر نہ کر پاۓ گا دل میں گھمان شیشے کا

0
6
ہے آتی نیند ، نہ ہی قرار آتا ہے
دیتی ہے ساتھ شمع نہ ہی یار آتا ہے

0
7
ڈر ہے کسی کی یاد کا بادل اکھیوں سے
برس جاۓ کسی بھی وقت افری

0
5
نوچ کر خود کو بے پَر کر لیا میں نے
پنجرے کو نیا گھر کر لیا میں نے
صحرا میں پیاس مٹا لی دیدۂِ تر سے
یوں سرابوں کو ہی سر کر لیا میں نے
شاہی کو تیاگ کر پردیس اپنا لیا ہے
بہادر ہوں خود کو ظفر کر لیا میں نے

0
8
مجھے میرے مطابق سمجھ لینا
وگرنہ چاہے سابق سمجھ لینا

0
7
رحمت دا مینہ پا خُدایا باغ سُکا کر ہریا
بوٹا آس اُمید میری دا کردے میوے بھریا
مٹھا میوہ بخش اجیہا قدرت دی گھت شِیری
جو کھاوے روگ اس دا جاوے دُور ہووے دلگیری
سدا بہار دئیں اس باغے کدے خزاں نہ آوے
ہوون فیض ہزاراں تائیں ہر بھُکھا پھل کھاوے

0
6
افری بس عنوان بدل دیئے جاتے ہیں
ورنہ سٹوری تو ویسی ہی ہوتی ہیں

0
3
یادوں پر ہمارا کوئی اختیار نہیں
تم پر سلام ہو تمہیں بہت یاد کیا
مجھ پر بھی سلامتی جو میں نے کھو دیا ہے
اس فراق میں، خود کو بھی بہت یاد کیا

0
5
اگر اس کی نظر میں نہیں رہنا
ہمیں اس کے نگر میں نہیں رہنا
جہاں دل کی قدر نہ ہوتی ہو
ہمیں شہرِ بے مہر میں نہیں رہنا

0
4
اب قاضی بھلا قضا چاہتا ہے
اپنے لئے ہی سزا چاہتا ہے
اتر آیا ہے ایسی حرکتوں پر
دیکھے یہ زمانہ کیا چاہتا ہے
کس قدر گرایا دیا عدل سے
کرنا نظام کو تباہ چاہتا ہے

0
6
سو رہو اب آنکھیں مِیچ کر
افری چلو دو گھڑی چین آۓ تو

0
4
گاؤں سے زرا ہٹ کر
بیری کا درخت تھا کھڑا
بچوں کو سب ڈراتے
اُس پہ جن آتے جاتے
مگر ہم کر اس کےنیچے
خوب کھیلا کودا کرتے تھے

0
4
کیا فرق تھا گر باسی ننگے ہوتے
گر شہر میں انسان اندھے ہوتے

0
1
سب بروہاں تے کُنڈل مارے بیٹھے سَپ
دل نوں چنگے دسن پر سب زریلے سَپ
بندہ لبدا پھراں میں چار چو فیرے
کھل اتارن تے دیکھاں کالے پیلے سَپ

0
3
روٹھنے کے بعد ہی یہ سوچا
وہ یوں نہ کرتا، میں بوں نہ کہتا
رشتہ ہی بچ جاتا رواداری میں
وہ اوۓ نہ بلاتا میں اے نہ کہتا

0
3
کٹی لمبی رات سحر کے لئے
دربدری رہی اک گھر کے لئے

0
6
“تارے بھی بجھ گئے تو آئیں کس شمار میں”
دن ہی کیا رات بھی گئی تیرے انتظار میں
کیا خبر تھی تو تنہا چھوڑ جاۓ گی اے زندگی
مفت میں سب کچھ لُٹا دیا تیرے اعتبار میں
غمِ حیات سے وہاں بھی اماں نہ ملی
سُنا تھا بڑی راحتیں ہیں سایۂِ زلفِ یار میں

0
9
تنہائی کی آگ میں جل کر
شمع کے ساتھ تمام پگھل کر

0
5
کہاں سے آئی ہیں یہ کدورتیں افری
نہیں یہاں دل ملتے ہاں ہاتھ ملتے ہیں

0
9
مٹی رَل مٹی نوں کھا جاندی اے
قبر تک گَل جدوں آ جاندی اے
کیڑی دانہ ادھا کر کھُڈ چ رکھے
دسدی اوتھے نمی آ جاندی اے

0
6
کیا ہوتا ہے میں ہوں کہ تم ہو
اپنے ہیں سب ہی خوشی ہو یا غم ہو

0
1
مشغول تو ہوتا نہیں کوئی اتنا بھی افری
سچ پوچھو تو سارا معاملہ ترجیحات کا ہے

0
8
ہوا کا زور تھا طائر یہ پھڑ پھڑاتا رہا
فنا بھی ہوتا رہا راہ بھی دکھاتا رہا

0
9
کرتی ہے ہر شے اعادہ اس اقرار کا
دونوں عالم پاتے ہیں صدقہ اسی سرکار کا
لوٹ آؤ دین محمد پر کتاب اللہ پر
کام آۓ گا نہیں بھٹکنا یونہی بیکار کا

0
8
ہوا کا زور تھا دیہ پھڑ پھڑاتا رہا
فنا بھی ہوتا رہا رہ بھی دکھاتا رہا

0
8
ہر خطرے سے رہنا آگاہ
ہو جاۓ گا کہیں بھی بس ٹھاہ

0
6
لاگو کرو نصاب محمد کے نام سے
"آئے گا انقلاب محمد کے نام سے"
خوشبو کے ڈھیر لگ گئے ہیں شش جہات میں
میں نے کیا خطاب محمد کے نام سے
اِقرأ سبق سے آگے قلم کا معاملہ
نازل ہوئی کتاب محمد کے نام سے

0
10
لڑ رہے ہیں رہ میں ہی کیوں یہ سب افری
ہیں گر سارے مسافر اپنی منزل کے

0
4
اللہ جانتا ہوں تو ہی معطی ہے فقط
قطرۂ کوثر مانگوں گا قاسمِِ ذی مقام سے

0
10
لاگو گرو نصاب محمد کے نام سے
“آۓ گا انقلاب محمد کے نام سے”
محفل میں خوشبو نے ڈھیرا لگا لیا
کیا تھا ابھی خطاب محمد کے نام سے
اقرا سبق سے آگے قلم کا معاملہ
تمام ہے کتاب محمد کے نام سے

0
15
افری یہ جتنی بھی حسِ جمال ہے
حکمت ہی اصل میں رُوحِ کمال ہے

0
9
افری یہ جتنی بھی حسِ جمال ہے
حکمت اصل میں رُوحِ حیات ہے

0
7
برکت خاموش ہو رہنے میں نہیں ہے افری
برکت، حکمت، وقت پہ ہی اختیار میں ہے

0
4
ویرانوں میں بسیرے ہیں، وحشتوں کے ڈیرے ہیں
افری میں آسیبوں کے دیار سے نکلوں کیسے

0
8
تھا کسی کی یاد کا پڑاؤ
گزری درد میں رات ساری
میں تنہا کھڑکی میں بیٹھا کر
تکتا رہا چاند دیر تک
جھونکا چلا سرد ہوا کا
تو کچھ دیر موندھ لیں آنکھیں

0
9
یہ زندگی بھی عجیب زندگی ہے
جو خواہشوں، خوابوں سے بھری ہے
تمام عمر ریس میں سرپٹ بھاگتے
خرگوش کا پیچھا کرتے کُتوں کی طرح
سعئ لاحاصل میں دوڑ کر گزار دیتا ہے
بے خبری ایسی اس پر نمبر لگا ہوتا ہے

0
10
دسمبر میں بدن سُلگا شام کے وقت
نہیں ساتھ آیا جو چلتا شام کے وقت
کسَے دِے سارے خَط اج سَاڑ کے
میں آپ وی تے بَلِیا سَڑِیا ہاں
ہے اُجاڑ کَنڈیاں نَال پُرُویا ہُویا
کَدِی جے ماضی سَمے وچ وَڑّیَا ہاں

0
7
سُن بات خود کو ایسے کام یاب کر
تقدیر کو تدبیر سے سیراب کر

0
7
افری جد کدی کوئی میتھوں دُنیا وچ امتحاناں بارے پُچھے
میں دساں مرد عورت ، عورت دولت، اگ پھرے دولت پِچھے

0
8
عشقِ نبی سرِ دین بھی وسیلہ بھی دُنیا کا
بنا اس کے بندہ نہ دین کا نہ ہی دُنیا کا

0
4
ساری خیر نظر میں دھیان کو قابو میں رکھ
اپنی نافرمان زبان کو قابو میں رکھ

0
6
تحسین افری میرے دشمن کے لئے
بچ دوستِ مثلِ مار آستین سے

0
10
جب بھی اس کو آخری خط لکھنے بیٹھا
چند سطروں کے بعد جب پہ چاہا
تحریر ختم کروں فل سٹاپ کے ساتھ
دھڑکن مگر دل کی تیز ہو جاتی ہے
قلم بھی بےاختیار دوڑنے لگتا ہے
افری میں دیوانگی میں مسکرا دیتا ہوں

0
14
نازک رُوح بدن سے زیادہ افری
نشتر لگا لفظوں سے طعنہ نہ دے

0
6
جب بھی دسمبر آیا
تم نے چشن منایا
پھر گئے دنوں کا
جب حساب لگایا
کچھ پاس نہیں تھا
تھا سب کچھ پرایا

0
5
افری گئی جوانی اب تو بڑھاپا آیا
دیوانگی وہی ویرانے میں ڈیرا لگایا

0
6
افری سارے حُسن، وقار کو گہنا گیا ہے
ظالم شہر مرے گاؤں ہی کو کھا گیا ہے

0
12
دوست کترا کے گزر جاتے ہیں افری
ڈرتے ہیں لباس کے آئینوں سے کیا؟

0
6
اپنی قسمت پر بھلا ناز کیوں نہ کروں میں افری
میرا رب جیتا جاگتا الرحمن، الرحیم الکریم ہے

0
5
شہرِ نبی میں اک عجمی عاصی آیا ہے
اشکِ ندامت پاس جھولی خالی لایا ہے
کرتا ہے دعوہ محمد کا امتی ہونے کا
نامہ اپنے ساتھ عمل کا خالی لایا ہے

0
4
پڑھ پڑھ کے نعت سُناون چڑیاں روضے رسول دیاں
سُنن والیاں نوں وجد وچ لیاون چڑیاں روضے رسول دیاں
اس سوہنے دے گیت فیر ناں کیوں گاؤن افری
اُسے در دا جو کھاؤن چڑیاں روضے رسول دیاں
انہاں نیں سونہے دے گھر تے پکے ڈیرے لایئے
روضے تے آؤن کدی جاؤن چڑیاں روضے رسول دیاں

0
8
ذکرِ صلی علی محمد دل کو سانسوں کی نوید
میرے بدن سے ورنہ روح کا گزر کیا معانی
جوڑ کے توڑ دیتا ہے پھر جوڑنے کے لئے
کوزع گر کو نہ ہو اتنا اختیار تو ہُنر کیا معانی
میں پُتلی سارے دھاگے اس کے ہاتھ میں
کھیلنا اس کی مرضی ہے میرا صبر کیا معانی

0
10
رندوں کی مستی، ہے باد و جام وہی
ساقی کا صرفِ نظر اس کا دام وہی
تنہائی میں اور بڑھ جاۓ گا اپنا درد
پھیل رہی ہے رات ہے تام وہی
لوٹ آۓ گا وہ ، در کھلا رکھا ہے
دل بیتاب کا ہے خیالِ خام وہی

0
12
کتنا خوش کِھلا ہنستا تھا میں
ماں سے جب بھی لپٹتا تھا میں
میری ماں ہمت کا پیکر تھی
حوصلہ ماں سے لیتا تھا میں
تھی آباد دنیا اس کے مسکرانے سے
میری خوشی کا خزانہ سوچتا تھا میں

0
7
زندگی کا میری اتنا ہی فسانہ ہے
مٹی کی تاریک تہہ سے باہر آنا ہے
اس جہانِ رنگ و بُو میں کردار نبھانا ہے
نازکی سے پختگی کا سفر بقا کے لئے
پیڑ ہو کر فطرت و وفا کے لئے
خوشی سےمجھے برگ و بار لانا ہے

0
7
ہے اگر وحشت نگر کو دیکھنا
آ کبھی میرے ہی گھر کو دیکھنا

0
6
درد کی شمع جلائی ہے دل کے نگر میں
یاد کا سلسلہ چلا رات کے پچھلے پہر میں
خواب ٹوٹتے ہیں اداس موسم میں
گیا چمن کے پھول کی طرح بکھر میں
چاندنی رات میں تنہائی کا سایا ہے
یاد کی گونج ہے دل کے بام و در میں

0
11
روتا ہوں سب کا ہی درد سمیٹ کر
اک دیوارِ گریہ اٹھا لی ہے گھر میں

0
8
آنکھ سے اکثر آنسو برس جاتے ہیں
آواز کو کان ترس جاتے ہیں

0
8
چشمِ نم میری دلِ سوزاں دیکھتے
کاش تم میرے غم کا طوفاں دیکھتے
ہم تڑپتے ہیں جن کے لئے ہر گھڑی
قرار آ ہی جاتا گر رُحِ تاباں دیکھتے
غریب کو ملتی نہیں دو وقت کی روٹی
رہبر ہمارے انداز اپنا شاہاناں دیکھتے

0
8
چلے آتے ہیں غم دبے پاؤں
کرتے ہیں چشم نم دبے پاؤں
شوقِ دیدار لے جاتا ہے مگر
لوٹ آتے ہیں ہم دبے پاؤں
سادگی پہ مری ہنستے ہو
دنیا میں جئیے ہم دبے پاؤں

0
11
قائم اک حدِ فاصل کر لو
حاصل کو لا حاصل کر لو
لا الہ الا اللہ کو پڑھ کر
افری ہر باطل کو باطل کر لو

0
10
تھی نہ کھڑکی کوئی، کھلا دروازہ نہ تھا
خاموش نگر میں کوئی ، آوازہ نہ تھا
کتنی حسرتیں سینوں میں دباۓ تھے
کسی کو خبر تھی کوئی اندازہ نہ تھا

0
8
دیوانگی میں بس بولتا رہتا ہے
بیتاب ذہن ہے جاگتا رہتا ہے

0
11
خود سے باتیں کرتا ہوں
میں کاغذ پر لکھتا ہوں
رکھ کر نقطہ پر پرکار
افری مسلسل چلتا ہوں

0
11
میں خود سے باتیں کرتا رہتا ہوں
میں قرطاس پر لکھتا رہتا ہوں
اک نقطے پر پرکار رکھ کر افری
میں اکیلا ہی سفر کرتا رہتا ہوں

0
9
دُنیا ہے مثلِ شجرِ سایۂ دار
مثلِ مسافر ہیں سرِ راہ گزار
چند ہی گھڑیاں ملیں رہنا ہے ہوشیار
اصل سفر آخری منزل کا ہے درکار

0
9
پگلے گر ہمیں ساتھ ہی مل کے رونا ہے
تو ہی بتلا ترا دل کیسے دُکھاؤں میں

0
9
رونے والی بات پہ بھی میں روتا نہیں
روتا ہے سارا بدن افری اکھیوں کے سِوا

0
13
ہر کسی کو عزیز اپنا مصلحہ ہے
میرے ملک کا یہ بڑا مسئلہ ہے
کتنی سسکیاں سنائی دیتیں ہیں
وہ گھر جو محل نما منقشہ ہے
عجب بھُوکے لوگوں کا چلن ہے
دولت لٹاتے جب گاتی دلرُبا مطربہ ہے

0
14
ہاتھوں میں نہیں سروں میں ،مشعلیں لے کر نکلنے کا وقت ہے
موت ہے رکنا اُٹھو دوستو، یہ چلنے کا وقت ہے
سینچی جو کیاریاں اپنے لہو سے ، میں دیکھ رہا ہوں
پھیلی ہے بہار آنے کو ہے گُل کھلنے کا وقت ہے
بیڑیاں پاؤں کی تمھیں توڑنا ہوں گی آذادی کے لئے
بلند تکبیر ہوتی ہے، تقدیر بدلنے کا وقت ہے

0
18
مولا بجا گنہگار ہوں میں
رحمت کا طلبگار ہوں میں
کریمی تری پر ہے بھروسا
مجھے زندگی کا شعور دے
نظر کو مری طول طور دے
تجھ کو واسطہ تیری رحیمی کا

13
یاد تو وہ بہت آۓ گا لیکن
کچھ حالات نہ ہوں گے بس میں
کُھو جائیں گے تحویلوں میں
سارے وعدے ساری قسمیں
ملنے اور بچھڑنے کو افری
بس اس دُنیا کی ریت کہوں گا

0
2
49
پَر لگ جائیں مجھے پرندے کی طرح
آذاد اڑوں دلکش نظارے دیکھوں
نفرت کی دنیا سے بہت دور پرے
کرتے الفت ہی لوگ سارے دیکھوں
ننھی چڑیا چونچ میں پانی والی
خواہش ہے بجھتے انگارے دیکھوں

1
102
ظلم ہو چُکا ہیں گرم اب محفلیں ہونے والی
ورنہ سہل نہیں مشکلیں ہونے والی
یاد رہے ہےامتحاں کی گھڑی آنے والی
ہیں ظاہر کالی سب صورتیں ہونے والی
کاٹو سفر ولولے سے بس تم چلتے رہنا
ورنہ قریب نہیں وہ منزلیں ہونے والی

0
1
22
مِٹّی کے جِسْم کو سوچنے کی مُہلَت نہ مِلی
تھا چُھپا سونا، دیکھنے کی فُرصَت نہ مِلی
قَرض سَمَجھ کر لوٹا دی میں نے افری
رہ کر گاؤں میں جب مُجھے ہی چاہَت نہ مِلی
سب بازار سے گُزرے نَظَر بَچا کر ہی
میں دِل بیچنے آیا تو بھی قِیمت نہ مِلی

0
1
19
پردیسی ہونے میں اتنا تو تجربہ ملا ہے
مدت سے جیب میں گھر کا نقشہ رکھا ہے
جو جوان کماتا رہا روزی عبادت سمجھ کر
اس بوڑھے نے بنوا کر اپنا کتبہ رکھا ہے
رات کے پچھلے پہر سرگوشی سنائی دیتی ہے
رقیب نے اب بھی اک شعلہ بھڑکا رکھا ہے

1
16
جھیل میں اترا ہے چاند
وجد چاندی میں چھایا ہے
تھی خموشی مگر اب کہیں
شورا چکور نے مچایا ہے
ایسے ماحول میں تیری
یاد نے مجھے ستایا ہے

1
23
سوداگروں کی بستی میں جب بکنے آۓ
پھر کتنے خریدار ہمیں چھونے آۓ

0
19
لفظ بانٹتا ہوں درد بانٹتا ہوں
میں یقین کا ہی ورد بانٹتا ہوں

0
14
میں نے جتنے خواب بُنے
میں نے جتنے گلاب چُنے
اپنے صادق جذبے سے
میں نے جو القاب چُنے
حسرتیں اور حوالے ملیں
ماضی کی جو کتاب کھُلے

0
20
تمہیں کرسی کے شوق نے ہلکان کیا
ہمیں روٹی کی طلب نے پریشان کیا

16
کیوں کہتا ہے دلکش نظارا نہیں ہوتا
صحرا میں تم نے وقت گزارا نہیں ہوتا
بھلا جوڑے میں تنہا چاند اٹکے گا کیسے
اگر آنچل میں تاروں کو اتارا نہیں ہوتا
چلی آتی ہیں مل کر یادیں سکھیوں کی طرح
انہیں میں نے پکارا نہیں ہوتا

18
میں چاہتا ہوں اس کی آنکھوں پہ غَزَّل لکھوں
حسنِ عارض کو پڑھوں ابرُوِ قاتل لکھوں
ہونٹ ہیں سُرخ گلاب کی پنکھڑیاں
زلفیں مُشک باز ہیں بدن صندل لکھوں
بس حجاب مجھے پابند رکھتا ہے
اظہارِ محبت ہے کتنا مشکل لکھوں

24
سُرمۂ محمد ﷺ
یہ جتنا نظر کا اُجالا ہے
میں نے سُرمہ مدینے کا ڈالا ہے
گرنے والے تھے آگ میں ہم
رحمت دو جہاں نے سنبھالا ہے

1
24
یاد شکل بھی ہے اس کا خیال باقی ہے
اس کا چھوڑ جانا یونہی سوال باقی ہے
ٹوٹی نہیں ہے امیدِ حیات ابھی افری
سوکھ کر گرا شجر لیکن نہال باقی ہے

0
19
رہیں اناء پرستوں میں فقط ذاتیں مقدم
رہا انسان نہ باقی سوا ابلیسیت کے

0
26
آج پھر بارش برسی ہے
بڑے زور سے برسی ہے
بجلی کی کڑک الامان الحفیظ
شور ہے سب جل تھل
میں آرام کرسی پر اکیلا بیٹھا
درختوں میں ڈرے چھُپے دُبکے

0
38
تکتا ہوں فلک ہر دُعا کے بعد
رب کریم عطا من و سلوی ہو جاۓ
پیری نے بھی ہے ضعف کر دیا
سعئ خام سے سلسلہ ہو جاۓ

0
22
ذکرِ نبی سے لفظ مہکتے پھول ہو جاتے ہیں
عاصی بھی درِ نبی پر مقبول ہو جاتے ہیں
سکھاۓ آپ نے آداب حکمتِ حیات کے
حضور کے بتاۓ احکام اصول ہو جاتے ہیں

0
7
ہر تنگی سے وسعت اس ہی اعتبار میں ہے
ہر خیر چھپی ہوئی توبہ استغفار میں ہے

0
21
فاحتہ جو رہتی ہے پڑوس کے شجر پر
خاموش رہتی دن بھر صیاد سے ڈر کر
رات کی تاریکی میں کیوں بولتی ہے
شاید رہتی موذی سانپ سے ڈر کر

0
23
اپنے لئے یا، وطن، قوم و ملت کے لئے
کس کے لئے مانگوں دُعا شب بیداری میں

0
24
آدم زادہ ہوں میں
رہ میں لا مکاں کی
مسلسل چلتا ہوا
دریا نار صحرا
ستم ہوتا ہوا
لشکر سب ہوا کا

0
29
پھر سے کرو گھر میں شجر کاری افری
سوکھے پیڑ ہوں تو گھونسلے نہیں ہوتے

0
28
آتی ہے آندھی چلو زرا دیکھتے ہیں
رکھ کر در پر اپنا دِیّا دیکھتے ہیں
خواب زمین پہ ہمیں اترنا ہے ساتھی
روکتا ہے کیسے ہمیں دریا دیکھتے ہیں
تاریکی سے ابھی دامن چھُڑانا ہے
سورج کو بنا کر ہم نوا دیکھتے ہیں

0
31
مانگوں دعا مقبول مرے اللہ ہو جاۓ
مصطفی کی ہو نظر تو کرم واللہ ہو جاۓ
کانوں میں گونجتی رہتی ہیں حرم کی بانگیں
ازنِ حاضری پھر سے عطا للہ ہو جاۓ
گھبرا گیا ہوں گردشِ دوراں سے یا نبی
قلبِ پریشاں کو عارض کا تجلا ہو جاۓ

0
24
پردیسی میں اک جوگی
گھوموں میں نگری نگری
گیتوں میں ہے درد رچا
آہو بکا ہے دل کی صدا
رہبرو! میرے غریبوں کو
روٹی دو ، سر کی چھت دو

0
29
کتابِ زندگی کو پڑھتے جاتے ہیں
بہت غریب ورق کھلتے جاتے ہیں

0
26
بارش برس رہی ہے
بجلی کڑک رہی ہے
سوکھی رمل سے مل کر
ہر بوند اچھل رہی ہے
ہو گئے شجر ضعیفوں جیسے
ہولے سے مل رہے ہیں

0
30
دلگی دا کمال عشق
اویس و بلال عشق
وسیا رُوح وچ خمار
ہے حسن جمال عشق
یار سر کٹاؤے
مڑ کرے سوال عشق

0
43
وفا، ادا، کتاب میں لکھے ہوۓ
یہ ہیں تمام دام بچھے ہوۓ

0
30
زور آور اتنے پاگل ہو گئے ہیں
کوچہ و بازار جنگل ہو گئے ہیں
لہو شہیدوں کا ہم سے پوچھتا ہے
کیوں نشان منزل کے اوجھل ہو گئے ہیں
میرا چوکیدار ہی مار ڈالے گا مجھے
جبر کے سلسلے مسلسل ہو گئے ہیں

0
38
کیسا ہوتا ہے بھلا غیر دیاروں کا سفر
کر کے دیکھو کبھی دریا کے کناروں کا سفر
بیٹھ جاتے ہیں راہ میں کسی امید پر افری
ہوتا نہیں طے مسلسل کبھی بیماروں کا سفر
مولا تُو ہی اب دے آسانیاں بھی
آسماں میں الجھا رہتا ہے ستاروں کا سفر

0
42
نکلے وہ دبے پاؤں کہ خبر تک نہ ہوئی
حائل تھیں ایسی دیواریں بلایا نہ گیا
بہت لوریاں سنائیں مجبور ماں نے مگر
روتی ماں سے بھوکے بچوں کو سلایا نہ گیا
در بند رہیں تو دیواریں بولتی ہیں افری
اندر کی تنہائی سے بھی درد چھپایا نہ گیا

0
40
فقط صفر ہی اعداد کا پیش امام ہے
وہی ابتدا بھی انتہا کا مقام ہے

0
24
بے سبب تو نہیں روتا کوئی
کیسے پھر چین سے سوتا کوئی
ہر روز ہی ہنگامہ ہے بپا
کہیں امن کا مرکز ہوتا کوئی

0
21
جانا ہے گاؤں یونہی بے خبر جانا
گلیاں بھولیں پھر بھی ہے مگر جانا
کتنی مدت سے در ہی بند ہیں سارے
افری اپنے ہی گھر ہو کر بے گھر جانا

0
29
تیرگی ہے مگر اتنا تُو یارا رکھنا
منزل تک ضامن کوئی تارا رکھنا

0
33
ایتھے مسافر ہاں خبرے کد ٹُر جاناں
مٹی دے بندے ہاں آخر کُھر جاناں

0
24
بھاری مشینوں کا شور ہے میرے گھر کے باہر
دُنیا ابھی تک اُجڑ کے بس رہی ہے افری

0
28
ساز و ساماں ہے میرا افسانہ جُدا
ساغر و ساقی ، ہے میرا پیمانہ جُدا
بادہ و مینا بھی ہے میرا خمار جُدا
مظرابِ دل سے دھڑکن کا ترانہ جُدا

0
25
محمدﷺ ہمارے نبی ہیں
انہوں نے اپنے نورسے ہدایت بخشی
اے پیارے!
مکہ سے اٹھ کر ان کا نور مدینہ تک چھا گیا
جو ان کی نماز/سلام پڑھے اوران کی سیرت پہ عمل کرے
خوش نصیب ہے وہ جو شخص ان کے ساۓ میں چلتا ہے

0
17
کل رات جو چاند کو دیکھا
میں نے پھر دل میں یہی سوچا
خود کو ہی کیوں نہ بھُول جائیں ہم
تیرے بعد کیسے عید منائیں ہم

0
41
خیال اپنی محبتوں کا
ملال تیری بغاوتوں کا
خیال کیسا ، ملال کیسا
یہ سانپ سوچوں کا جال کیسا
یہ چار جانب ہے بھیڑ کیسی
تو افری تماشہ بن رہا ہے

0
30
تو قریب ہوتا ہے
یہ دل میرا روتا ہے
خبر ہے ملنے کے بعد
ہمیں پھر بچھڑنا ہے
کفِ افسوس ملنا ہے
جب پھُول کھلیں گے

0
29
چہرے پہ میرے
کیوں نظریں جماۓ ہو
ہاں کچھ بھی نہیں ہے
ہاں تلخئ حالات کے سوا
کبھی روز گار کا غم
کبھی دُنیا میں آنے کا الم

0
35
جب شام ہوئی تو صبح کا خیال آیا
صبح آئی تو خود پہ رونا آیا
گھر میں وہی ہُو کا عالم تھا
پھر آج بے بسی پہ رونا آیا

0
11
اس سے پہلے کہ تم کچھ بیان کرو
زرا اپنی حالت کا دھیان کرو
حالے آنکھوں کے گواہ رتجگے کے
اپنے چہرے سے مسخ یہ نشان کرو

0
40
کہہ دے نہیں ملتا کوئی دوستِ باوفا لوگو
بے کار ہے عشق و محبت کا چرچا لوگو

0
48
ہر شعر میں نے جس کے تھا نام کیا
اس نے ہی مجھے گاؤں میں بدنام کیا

0
23
اتر جاؤں افری میں دریا کی صورت
تری آنکھوں میں گہرا بحر دیکھتا ہوں

0
27
دانائی خوف ربّ اعلی ہے
یہ حکمِ محمد مصطفے ہے

0
44
اب دل کو رکھو اپنے کُشادہ لوگو
یاں جو بھی ملا وہی دل تنگ ملا ہے
آخر میں رکھوں کس سے مروت کی توقع
جو یار ہے ہاتھوں میں لئے سنگ ملا ہے

21
سوختہ جانوں پہ تم نے ستم کیا
کاٹیں زبانیں سروں کو قلم کیا

0
23
تیری چاہت کا بھی مجھ کو احساس ہے
اپنی حالت سے بھی میں پریشان ہوں
مجھ کو معلوم ہے تیری تکمیل میں
کتنی راتوں کو میں جاگتا ہی رہا
ایک سایہ ہے تو تیری خواہش میں
بھاگتا ہی رہا ، بھاگتا ہی رہا

35
دل کسی سے لگانا نہیں اچھا
ہو جاؤ گے بدنام زمانہ نہیں اچھا
اتر جاؤ گے دل سےگر جاؤ گے نظر سے
یونہی تیرا ہم سے دور جانا نہیں اچھا
تیرے ہیں تیرے رہیں گے ہم
دیکھ یوں طعنے دے کر ستانا نہیں اچھا

0
49
افری کیسے ہو گی تسکین سرابوں سے
جان بلب ہوں منہ میں امرت ٹپکاؤ زرا

0
27
چلا جاؤں گا مجھے ڈھونڈتے رہنا
میرے ہر شعر کو بس چُومتے رہنا
بہار کا موسم لوٹے گا جب افری
دینا آواز گلیوں میں گھومتے رہنا
تیرے آنگن آیا کرے گی افری
میری یاد کی خوشبو سونگھتے رہنا

0
25
وہ قرب کے لمحات اگر بھول بھی جائیں
برسوں ہمیں تڑپاۓ گی احساس کی خوشبو

24
رہا اے خدا سدا تیرے ہی کرم کا سہارا
سوا تیرے کوئی غفور نہیں رحیم نہیں

0
26
کچھ آسان نہیں لیکن یہ ضروری ہے افری
سامنے اپنی خواہشوں کے دیوار ہو جانا

0
20
پوچھو نہ دوستو! دل پہ ہمارے کیا گزری
اپنے آپ میں ہم مسکراتے رہتے ہیں

0
19
سپنے ہی آنکھوں میں سجایا کرو
تلخ ہوتی ہے حقیقت افری

0
16
دے کر حوصلہ ساتھ چلنے کا افری
چلا میں تو وہ میرا ہمقدم نہ ہوا

0
34
افری میری آواز کی جو رسائی ہوئی
اس کی ساری تدبیری دھری رہ گئی

0
26
افری پھر گر کر سنبھل ہی گیا
بھللا کوئی ہے جو بُرا مجھ سا

0
18
افری پھر سے بچھڑ جانا نئی بات نہیں
ایسے ہی دکھڑوں میں ساری عمر گزاری ہے

0
22
میں پہلوں پہل جد گھروں باہر سی ٹریا
استاد حکیماں مڑ کے ایو پٹی پڑھائی مینوں
مَن اُہو جہیڑی گل دماغ تیرے وچ آئی”
مینوں اُس ویلے ماں میری دا سخن چیتے آیا
“پُترا منِّیں دل دی بھاویں ہوۓ جگ پرایا”
میں چھڈ کے دماغ دا تول ترکڑا افری

46
تم نے جب سروں کو قلم کیا
اہلِ دل نے بھی پختہ عزم کیا

0
31
اکھر کالے پڑھ اکھاں پتھر ہوئیاں
درد کھلارہ ہر پاسے اکثر رویاں
کوئی نال نہ لے ٹریا گٹھڑی اپنی
سدراں پلا چھڈا قبروں باہر ہوئیاں

0
29
پردیسی پرندوں کی طرح خلاؤں میں رہتے ہیں
ہجرت کی پیش تمام سزاؤں میں رہتے ہیں

0
34
اچھے ہیں لوگ اپنے گاؤں میں رہتے ہیں
پیپل کی کوئی نیم کی چھاؤں میں رہتے ہیں
دُنیا جہاں کی کمائی سے بہتر ہے افری
لوگ جو اپنی ماؤں کے پاؤں میں رہتے ہیں

0
32
ایک دن آخر بچھڑنا ہوتا ہے
بپھرے دریا کو اترنا ہوتا ہے

0
35
کیا دل چاہتا ہے کیا آنکھ ہی کہتی ہے
سارے بدن کی تھکاوٹ آنکھ میں رہتی ہے
دل کی مستیاں ہیں معصوم بچے کی طرح
دُکھ بھرے منظر دیکھ کر آنکھ ہی روتی ہے

0
36
یاد ہے میں کہتا تھا محبت نہ کرنا
ظالم ہیں لوگ تیرے شہر کے تمام
سیم و زر کے ہیں یہ مارے تمام
رسم و رواجوں کی ہیں اونچی دیواریں
وقت گلی سے گزرتے پاگل کی طرح
ہماری سُنی ان سُنی کرتا نکل جاتا ہے

0
45
بڑھاپے میں انسان اصل میں مہان ہوتا ہے
افری پرانا تجربہ ہی نئی تعمیر کی بنیان ہوتا ہے

0
26
کہنا اُسے اپنی ذات میں اتنا کمال رکھے
جذبہ نہیں اپنا دل بھی تھوڑا سنبھال رکھے
مزدور کی بیٹی بدون جہیز کے بکتی نہیں
کہنا اُسے قاضئ شہر سے میرا سوال رکھے
سوچو ایوانوں میں بیٹھے اندھے گونگے بہرے لوگو
دل کھولتا ہے کوئی جو سامنے وطن کی مثال رکھے

0
45
میری تحریر میں پنہاں اک سرگوشی رہتی ہے
ہاتھ کی زبان بن کر قلم کی نوک بولتی رہتی ہے
میں روز اپنی نئی باتیں لکھتا رہتا ہوں افری
میری ڈائری ہر سال لباس بدلتی رہتی ہے

0
28
میرے نوحہ کو بے سبب مت جان افری
کانٹا بھی اپنے اندر راز دبا رکھتا ہے

0
27
سوال خود ہی طالبِ جواب رہتا ہے
سوال مت سمجھنا لاجواب ہوتا ہے

0
28
دل تو میں نے ہی دیا تھا افری
جاتے آنکھیں بھی چُرا لے گیا وہ

0
30
دل تو میں نے ہی دیا تھا افری
جاتے آنکھیں بھی چُرا لے گیا وہ

0
21
دل میرا جد دُنیا تُوں گھبراندا اے
مینوں مکھڑا یاد حضور دا آندا اے
یار نیں اپنے رنگ چ رنگیا افری
دور نہ پل آکھیں تیں جاندا اے

0
29
دسمبر میں بدن سُلگا شام کے وقت
نہیں ساتھ آیا جو چلتا شام کے وقت

0
30
زندگی ہو کہ موت ہو کمال ہے
خود ہی سب سے بڑا سوال ہے
الست میں رب کا
دُنیا سے واپسی کا ،
ماں کی کوکھ میں پیار کا
دُنیا میں جینے کا

0
34
پھوٹ پڑیں مشرق سے کرنیں
حال بنا ماضی کا فسانہ
گونجا مستقبل کا ترانہ
بھیجے ہیں احباب نے تحفے
اٹے پڑے ہیں میز کے کونے
دلہن بنی ہوئی ہیں راہیں

0
69
کل کیا ہوا تھا عادت ہے بھُول جاتا ہوں
سوچ کی زمین میں تازہ پھُول اُگاتا ہوں

0
34
ہجر نے بانٹا ہے فاصلوں میں
وصل کی رُت راس نہیں آتی
نیند نے سیکھا ہے تم سے افری
سوچ میں ہے پاس نہیں آتی

0
23
درد کو میرے بیان ملے
اجڑے کو کوئی مکان ملے
بیج یقین کا اُگتا نہیں
جس مٹی میں گمان ملے
تپتے ہوۓ صحرا کا سفر
سایہ نہ رہ کے نشان ملے

0
35
ٹوٹے لفظوں کو بیان ملے
میری ہجرت کو مکان ملے

0
27
دکھے ان دکھے گناہ ہیں شرمندگی کے لیٔے
لگی ہے نگاہ تیری طرف معافی طلبی کے لیٔے
جہاں کی دویٔی تو دل سے دور کر دے میرے مولا
سر میرا جھکے تو تیری ہی بندگی کے لیٔے
ہے مالکِِ جہاں ایسی رحمت عطا کر دے
دل ہو آمادہ لا الہ الا اللہ کی تسبیح کے لیٔے

0
39
دل کی تسلی ہوتا بھروسہ میری ماں کا
بہتے آنسو روکتا بوسہ میری ماں کا
ماں سے بچھڑے ایک زمانہ ہوا افری
بُھولا نہیں میں کبھی چہرہ میری ماں کا

0
33
کتنے جذبوں سے ہوں سر شار خدا خیر کرے
نہال چمن کا ہو شجرِ سایۂ دار خدا خیر کرے
میری قوتِ گویائی تو چھین لی غمِ روزگار نے
ضرغام کی صورت زندہ رہیں گے افکار خدا خیر کرے

28
ہجرت کی ناقدری ، شہیدوں سے بے وفائی
کہنہ نظام کی یہ آکاس بیل پال رکھی ہیں
کتنی جلدی قیمت لگتی ہے یہاں ضمیروں کی
حرمِ اُمرا میں جمھوری رکھیل پال رکھی ہے

49
مُوت سے پہلے ہیں حائل کتنے پُل صراط
کیسے پار کروں مولا عطا کر مجھے بساط
ٹوٹتا رہتا ہے میرا مٹی کا یہ بدن
مرہم رکھتا ہے کوئی لگاتا ہے کوئی مِلاط
حاوی ہے شر اس کے سارے وجود پر
چل رہا ہے ماحول پہ اک محاط

0
26
بچپن وچ سُنیا ویکھیا سی
جن کسے نُوں جد چمڑ جاندا سی
بندے اندر وڑ ظلم بڑے ٹہاندا سی
فیر اک بابا دم پاون لئی آ جاندا سی
او پڑھ کلام جن نُوں بہت ڈراندا سی
جن معافی منگ کے جان چھڑاندا سی

30
تیرگی میں وہ بنا مشعل ہے
گیدڑوں میں کھڑا شیر افضل ہے
قدرت دیتی ہے اُس کو ہی منصب
بھیڑ میں ہوتا جو امثل ہے

36
لوگوں کے اضطراب سے ڈر لگتا ہے
اے راہبر تیرے انتخاب سے ڈر لگتا ہے
جو چاہے تاویلیں تُو پیش کرتا رہے
قاضی تیرے احتساب سے ڈر لگتا ہے

0
44
اپنا یقین گنوا بیٹھے
اپنا جہگا لہوا بیٹھے
پُرکھاں نال دھکہ کیتا
دین ایمان بھُلا بیٹھے
سب اُپر پلید آ بیٹھے
اجیا پاک ستان بنا بیٹھے

0
30
اپنا یقین کتھے گنوا بیٹھے
اپنا جہگا لہوا بیٹھے

0
32
تمای عمرے پردیسی لوک بُلاندے رہے
افری کُوڑ ناں بولیں اساں ہاں خانہ بدوش
رُوح دا سفر جاری الست توں برزخ تک
حشر وچ منگن گے اپنا مکاں خانہ بدوش

0
36
سوہنے آقا دا مدینہ بڑا سوہنا
میں وی ویکھاں جے بُلاوے کدی سوہنا
حسنِ آقا دی کوئی نہ مثال وے
چَن کردا اے ریساں جِدے نال وے
اَساں تیرے بِنا کسیدا نہ ہَونا
میں وی ویکھاں جے بُلاوے کدی سوہنا

0
29
بازو کٹا تھا عدو نے شہہ رَگ بھی کاٹ دی
گھر بچے گا کیسے؟ اب تُو سَڑّک بھی کاٹ دی

0
34
مداری کا بندر ڈفلی کے اِشاروں پہ ناچتا ہے
خرد تماشائی ہے جنوں انگاروں پہ ناچتا ہے

0
38
شعلہ بھڑکنے والا ہے بجھتے شراروں سے
دریا نکلنے والا ہے اپنے کناروں سے
نغمۂ آذادی سُن رہا ہوں میدانوں سے
دیکھا بلند جنوں کا شعلہ پہاڑوں سے
جنگل میں پھر خوف کا عالم طاری ہے
شیر نکل آۓ ہیں اپنی کچھاروں سے

0
37
کُل جہاناں رزق پُچاویں
رازق مالک آپ کہاویں
عیب بندے دے پردا پاویں
واحد تے ستار کہاویں
جِس ٹہنی تے کنڈے ہووَّن
اس ٹہنی تے پھُل کھلاویں

0
34
اپنے بچوں سے گزارش   سنُو ہی نہیں دیکھو بھی میری طرف۔ دوسروں کے شاہکار کو سراہو ضرور مگر متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ آپ اپنا شاہکار تخلیق کرو اگر کسی نے کیا تو آپ بھی کر سکتے ہو۔ابوظہبی میں Louvre Museum  میوذیم میں سکندر کا مجسمہ دیکھا تو احساس یوا ذندہ اور مردہ پتھراۓ انسان میں کیا فرق ہوتا ہے۔ ہم بولتے ہیں تو وہ چُپ چاپ ہمیں سُنتا ہے بولتا نہیں۔ چلیں  چھوڑیں ویسے بھی وہ ہماری پھوپھی کا بیٹا بھی تو نہیں تھا۔ ہمیں اہنا جہاں خود آباد کرنا ہے۔ بقول اقبال رح : - نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی جناب عالی ہم تو مزدورں کی اولاد ہیں ہمیں تو ایسی کوئی سدَر بھی نہیں۔  ہمیں بڑی بڑی کشور کشائی کا انجام بھی پتہ چلا۔ اتنا جدید میوزیم لوگوں کی بھیڑ میں بالکل خاموشی کیوں؟ جی جی منہ بند ہیں پتھراۓ لوگ ! بس بس یہاں زیادہ زکر نہیں کرنا۔ میں نے فیس بک پہ ایک پیج دیکھا نکمے فارغ لوگ رنگدار چوزے فوٹو میں گننے لگے تھے مسلسل آٹھ دن سے۔۔۔ میں نے ایک موٹا سا رنگدار سا تبرہ تول کر لکھا پھر اسے مذید بولڈ بھی کر دیا اور پوسٹ کرنے کے بعد پیج ڈیلیٹ کر دیا تاکہ چوزے گننے والے مچھروں کی طرح حملہ

54