“تارے بھی بجھ گئے تو آئیں کس شمار میں”
دن ہی کیا رات بھی گئی تیرے انتظار میں
کیا خبر تھی تو تنہا چھوڑ جاۓ گی اے زندگی
مفت میں سب کچھ لُٹا دیا تیرے اعتبار میں
غمِ حیات سے وہاں بھی اماں نہ ملی
سُنا تھا بڑی راحتیں ہیں سایۂِ زلفِ یار میں
ہر موڑ پہ تہمت و دُشنامی، رسوائی و ناکامی
یہی تحفے ہمیں ملے ہیں تیرے پیار میں
وہ حالت کو خوب جانتے ہیں کہ آج کل
میری خوشیاں پنہاں ہیں غمِ روزگار میں
دنیا کے ناخداؤں پہ یقین کون کرے افری
اماں ملے گی تجھے صرف رحمتِ پروردگار میں

0
9