میں سمندر کنارے بیٹھ کر
کاغذ کی کشتیاں چلاتا رہا
روشنی کی طلب میں افری
دیئے جلا کر میں بہاتا رہا
لہروں کے دوش پر تماشا
کچھ کشتیاں ڈوبتی رہیں
جو بچا وہ دیا ٹمٹماتا رہا
شاید زندگی اس قدر ہے
یہ تماشاۓ مدو جذر ہے

0
4