زور آور اتنے پاگل ہو گئے ہیں
کوچہ و بازار جنگل ہو گئے ہیں
لہو شہیدوں کا ہم سے پوچھتا ہے
کیوں نشان منزل کے اوجھل ہو گئے ہیں
میرا چوکیدار ہی مار ڈالے گا مجھے
جبر کے سلسلے مسلسل ہو گئے ہیں
ایک دھکا ان کو اور دینا پڑے گا
ان کے اعضا شل ہو گئے ہیں
افری ان سے سارا حساب لینا پڑے گا
اُجڑے چمن ، دیئے جو گُل ہو گئے ہیں

0
11