ہر موسم تصویر کروں گا
خالی کاغذ ہاتھ میں رکھ کر
خاصہ کو واقعات میں دبائے
تنہائی کے رشتے میں بیٹھا
خط کا مضمون سوچ رہا ہوں
مجھے تم سے کیا وعدہ کیا تھا
تیرے ہجر میں جو بیتے ہیں
وہ لمحے تصویر کروں گا
ہر موسم تصویر کروں گا
کیسے میرے دن گزرے ہیں؟
کیا درد کا جنگل تھا!!
دل کیسے تمازج ہوا تھا!!
تجھ پر میں ہر بات لکھوں گا
درد و سب برسات لکھوں گا
کیا کھولوں تجھ سے بچھڑ کر
سارے موسم غم میں لپٹ کر
درد کی اک تصویر ہوئے ہیں
پانی کی زنجیر ہوئے ہیں

0