تیرگی چھٹ نہ سکی، میں جو مچل جاؤں گا
روشنی بن کے میں پھر خود ہی نکل جاؤں گا
پھر سے وہ زخم ملے ہیں، جو چھپا بھی نہ سکوں
پھر سے میں درد کی دہلیز پہ جل جاؤں گا
اک نظر تم جو مجھے ڈھونڈنے آ جاؤ گے
خود کو بھولا ہوا میں پھر سے سنبھل جاؤں گا
آسمانوں کو میں چھو لوں گا یقیناً اک دن
گردشِ وقت سے ٹکرا کر بدل جاؤں گا
جو بھی آندھی ہے گزر جائے گی، رک جاؤں گا
وقت کی قید سے اک لمحہ سنبھل جاؤں گا
رنج و غم ہیں تو سفر کا یہ مزا بھی ہے کمال
راہ میں خار ہیں لیکن میں نکل جاؤں گا
حوصلہ ہے تو کوئی بات نہیں ہار کی بھی
دیکھنا ہار کو جیت میں بدل جاؤں گا
رکھ نظر اپنے ستاروں پہ، بڑھے جا آگے
افری زمیں کی کشش سے نکل جاؤں گا

0
8