ایسا بھی نہیں ہے کہ محبت نہیں آتی |
آتی ہے مگر اس میں تجارت نہیں آتی |
میں عشق کے دو چار سخن اور نہ کہہ لوں |
جب تک میری سوچوں میں سیاست نہیں آتی |
اس کوچہ بےمہر کی پھر ٹھانی ہے دل نے |
جس کوچے سے جاں کویی سلامت نہیں آتی |
ہم لوگ وفا پوجنے والے ہیں کہ ہم کو |
چڑھتے ہوۓ سورج کی عبادت نہیں آتی |
ہم اس کے در و بام کبھی چومنے جاتے |
بس یوں کہ غمِ جاں میں فراغت نہیں آتی |
جو عمر سے سڑکوں کی ہوا پھانک رہے ہیں |
کیوں ان کے مقدر میں بشارت نہیں آتی |
کہتے ہو جو گفتار ہیں کردار میں لاؤ |
ورنہ تو بیانوں میں حلاوت نہیں آتی |
زر دار غریبوں کے لیے مانگ رہے ہیں |
کیا ان کے خزانوں کو سخاوت نہیں آتی |
تو نے میری نظروں سے ابھی دیکھا نہیں ہے |
تجھ کو ابھی چہروں کی تلاوت نہیں آتی |
حیرت ہے کہ اک عمر سے غم تاپ رہے ہیں |
حیرت ہی کہ جسموں میں حرارت نہیں آتی |
معلومات