کیسے ہوتا ہے گزارہ نہیں پوچھا کرتے
زخم کھاتے ہیں ستارہ نہیں پوچھا کرتے
وقت کے ہاتھ میں تقدیر کی تحریریں ہیں
کون بدلا ہے اشارہ نہیں پوچھا کرتے
بھوک چہروں پہ ہو اور حوصلہ پتھر جیسا
کون دیتا ہے سہارا نہیں پوچھا کرتے
زندگی صرف تماشا نہیں بینائی بھی ہے
کون ٹھہرا، کہاں ہارا نہیں پوچھا کرتے
وقت آتا ہے تو دریا بھی پلٹ جاتے ہیں
کون گرداب میں مارا نہیں پوچھا کرتے
خواب بکھرے تو مقدر کی زباں کھلتی ہے
کون لکھتا ہے دوبارہ نہیں پوچھا کرتے
جو گرا وقت کی دیوار سے چپ چاپ گرا
کیوں بکھرتا ہے غبارہ نہیں پوچھا کرتے
جو گزرتے ہوئے لمحوں سے نہ سیکھے کچھ بھی
افری قسمت کا سہارا نہیں پوچھا کرتے

0
14