کیسا ہوتا ہے بھلا غیر دیاروں کا سفر
کر کے دیکھو کبھی دریا کے کناروں کا سفر
بیٹھ جاتے ہیں راہ میں کسی امید پر افری
ہوتا نہیں طے مسلسل کبھی بیماروں کا سفر
مولا تُو ہی اب دے آسانیاں بھی
آسماں میں الجھا رہتا ہے ستاروں کا سفر
زمین وہی ہے مگر مکان نئے بن گئے
ایک سا رہتا ہے وقت کی پرکاروں کا سفر
در نہیں ہوتے انا پرستوں کے شہر میں
افری میلوں چلتا ہے اونچی جداروں کا سفر

0
42