| تو بتا ، کیسے دل کے غم کو چھپائیں افری |
| چہرہ ہی پڑھ لیتے خود کیا بتلائیں افری |
| مان گئے اللہ کو جب سے خبر ہمیں ملی |
| ہم پھر کیوں بھلا عقل فضول لڑائیں افری |
| رات تو نیند آتی نہیں اس شہرِ بے اماں میں |
| دن میں بھونکتے کُتے مل کے جگائیں افری |
| ایک وہی ہے جو سازوں کو رکھتا ہے قابو |
| ہم اس کے ہی اشاروں پہ ہر دَم گائیں افری |
| دیکھو یہ حالت، جو اپنے ہی لوگوں کی |
| ایسے میں اب کیا ہنسیں گے یا روئیں افری |
| جبر کے موسم میں آہوں کا شور بپا ہے |
| سہمے لوگ اپنے بچوں کو چھپائیں افری |
| عدل و عقل کی مائی نے باندھی پٹی ہے |
| کون سی اور کہاں کی زنجیر ہلائیں افری |
| لوگ یونہی چپ ہوں گے اگر جلاد کے ڈر سے |
| جھکتے سروں پہ اترتی رہیں گی بلائیں افری |
معلومات