مِٹّی کے جِسْم کو سوچنے کی مُہلَت نہ مِلی
تھا چُھپا سونا، دیکھنے کی فُرصَت نہ مِلی
قَرض سَمَجھ کر لوٹا دی میں نے افری
رہ کر گاؤں میں جب مُجھے ہی چاہَت نہ مِلی
سب بازار سے گُزرے نَظَر بَچا کر ہی
میں دِل بیچنے آیا تو بھی قِیمت نہ مِلی
مُجھ سے نَفرت تھی، میں جانتا ہوں افری
سچّی تَحریروں کو بھی حُرمت نہ مِلی

0
1
14

0