راستے کتنے بدل ڈالے، مگر تیری طرف
دل کو تڑپاتی رہی تیری وہ چاہت نہ گئی
تم گئے تو بھی نہ بدلی مری ہِمّت کی چمک
زخم کھایا، تو کیا؟ دل کی وہ طاقت نہ گئی
ایک کمرے میں اکیلے تھے، مگر دل نے کہا
تیری یادوں کی جو آتی تھی وہ وحشت نہ گئی
غم زمانے کے سہے، پھر بھی مسرّت نہ گئی
تیری نفرت رہی باقی، مری عزّت نہ گئی
تیری چاہت میں گزاری جو وہ ساعت نہ گئی
خاک چھانی، مگر آنکھوں سے محبّت نہ گئی
زندگی بھر رہی دل میں وہ طلب ہی نہ گئی
خود کو سمجھایا مگر تیری ضرورت نہ گئی

0
4