بدلی ہے نگہ اپنی تو ، تیور بھی بدلتے
بدلے ہیں اگر ہاتھ تو ، پتھر بھی بدلتے
کیسے مرے حالات ہیں دنیا کے اے مالک
سپنے مرے کچھ خواب کے منظر بھی بدلتے
جھیلوں کے کناروں پہ لرزتا ہے کوئی دل
تم چاند پرانا ، نیا پیکر بھی بدلتے
بستی میں محبت کے ہیں اب اور تقاضے
بدلے ہیں طریقے تو جلا گھر بھی بدلتے
رکھا ہے ترے قدموں میں ماتھا جو یہ شاہد
ساقی کو بدلتے مرا ، دلبر بھی بدلتے

0
47