میری پلکوں پہ ہو رہی ہے شب
میری آنکھیں بھگو رہی ہے شب
مجھ کو سپنے بہار کے دے کے
خود خزاؤں میں رو رہی ہے شب
رکھ کے تصویر سامنے گل کی
اشک اپنے پرو رہی ہے شب
دیکھ کے اجنبی نگر دل کا
چاند اس میں سمو رہی ہے شب
ڈھونڈتے صبح روز شبنم میں
ہاتھ تاروں سے دھو رہی ہے شب
یاد کر کے رفاقتیں ، بچپن
بال سب کھولے سو رہی ہے شب
زندگی کو گنوا کے ہاتھوں سے
لفظ کہنے کو کھو رہی ہے شب
اک سویرے سے ہار کے شاہد
زہر کے نشتر چبھو رہی ہے شب

0
83