| میری پلکوں پہ ہو رہی ہے شب |
| میری آنکھیں بھگو رہی ہے شب |
| مجھ کو سپنے بہار کے دے کے |
| خود خزاؤں میں رو رہی ہے شب |
| رکھ کے تصویر سامنے گل کی |
| اشک اپنے پرو رہی ہے شب |
| دیکھ کے اجنبی نگر دل کا |
| چاند اس میں سمو رہی ہے شب |
| ڈھونڈتے صبح روز شبنم میں |
| ہاتھ تاروں سے دھو رہی ہے شب |
| یاد کر کے رفاقتیں ، بچپن |
| بال سب کھولے سو رہی ہے شب |
| زندگی کو گنوا کے ہاتھوں سے |
| لفظ کہنے کو کھو رہی ہے شب |
| اک سویرے سے ہار کے شاہد |
| زہر کے نشتر چبھو رہی ہے شب |
معلومات