شب کا دیپک بجھائے جاتے ہیں
درد من میں چھپائے جاتے ہیں
چھوڑ کے خوف ہم گھٹاؤں کے
ریت میں گھر بنائے جاتے ہیں
آج مجبور ہم ہوئے ہیں یوں
رنگ و بو میں نہائے جاتے ہیں
پیار میں ہیں شکستہ دل لیکن
ہم گلوں میں مسکرائے جاتے ہیں
اک حقیقت سے بن کے افسانہ
محفلوں میں سنائے جاتے ہیں
اے زمانے وہ ہم شجر ہیں جو
سوکھنے پر جلائے جاتے ہیں

0
50