| بزم میں بکھرے ربابوں کی طرح |
| ہے خلش دل کی گلابوں کی طرح |
| اک بسی دل میں ہے گو دنیا مگر |
| ہوں میں خاموش کتابوں کی طرح |
| سانس اک بن کے وہ نس نس میں کبھی |
| جاگ اٹھتا ہے عذابوں کی طرح |
| اک نئی روز قیامت ہے کوئی |
| کچھ نہیں یاد سرابوں کی طرح |
| ٹوٹا ہے تاج محل یوں کہ اسے |
| ڈھونڈتا چاند ہے خوابوں کی طرح |
| جگ کی باتیں ہیں اسی سے لیکن |
| ہے وہ زخموں کے حسابوں کی طرح |
| لمس زلفوں کا نشہ ہے شاہد |
| شب ہے مد ہوش شرابوں کی طرح |
معلومات