ملکی آئین ہواؤں میں اچھالا جائے
اک عدالت سے ، عدالت کو نکالا جائے
پھینک کے تیل کسی جلتے ہوئے مسکن پر
پھول سے چہرے پہ تیزاب بھی ڈالا جائے
توڑ کے پیار کی زنجیر پرونے والی
پھر نہ سیلاب سمندر کا سنبھالا جائے
ڈوب جب جائیں محبت کے مناظر سارے
دیکھ الفت کو نہ پھر سانچوں میں ڈھالا جائے
گھونٹ دی جائے صدا حق کی یہ بتا کے جگ کو
لب سے پھوٹے نہ فلک تک کوئی نالا جائے
میرے حاکم کو بھی لیکن یہ سنا دے دنیا
قید ہر کر کے زباں وقت نہ ٹالا جائے
داغ سینے کے نہ خوں سے مرے دھوئے جائیں
ڈھونڈنے اب نہ کبھی شب کو اجالا جائے
ظلم عنواں نہ بنے نظم کا شاہد پھر سے
غم کا سینوں میں نہ چھیدا کوئی بھالا جائے

0
6