گلاب ، خوشبو ، وفائیں ، ادا بدن میں ملے
فلک کا چاند مجھے شب کے پیرہن میں ملے
سراب جس میں بجھائیں زمیں کی تشنہ لبی
نشہ شراب کا باتوں میں وہ سخن میں ملے
بہکتا ہے کسی ساقی کے در پہ جیسے مے کش
مہک حنا کی کوئی مجھ کو بانکپن میں ملے
کسی کے چہرے پہ رک جائے جیسے شوخ نظر
کسی کی زلف کا جادو پڑی شکن میں ملے
تلاش جس کی ہمیشہ سے دل میں باقی رہی
اماں وہ مجھ کو سکوں حلقۂ رسن میں ملے
دلوں میں بند رہے راز زندگی اے مری
غرور میرا چھپا یہ کرن کرن میں ملے
چنوں میں پھول جو شاہد تری گلی سے کبھی
اڑے وہ خاک سے میری کھلا کفن میں ملے

0
18