جیتے جی اب مٹنا یا مٹانہ نکلے |
بند پلکوں سے چھپا غم کا خزانہ نکلے |
ایک سینے کا لگا زخم ہرا ہو جائے |
رتجگے کی زباں سے عذر ، بہانہ نکلے |
پھر کتابوں پہ جمی وقت کی مٹی اترے |
بھولے ماضی کا دبا کوئی فسانہ نکلے |
جھیل کے پانی میں بیٹھا کوئی پھینکے پتھر |
شب کے منظر سے گیا وقت سہانا نکلے |
اک زمانہ ہوا بچھڑے ہوئے ان کو ہم سے |
ہجر کی رت سے کہیں ہنسنا ہنسانا نکلے |
پھول شرمائے ملائم سی کھلی زلفوں سے |
وصل میں یار کے کچھ پینا پلانا نکلے |
شہر کی گلیوں سے شاہد سجا اک ویرانہ |
چوٹ تازہ ہو مگر درد پرانا نکلے |
معلومات