دل ناتواں کو اپنے یہ راحت کہاں ملے
پھر زندگی کو اپنی ، محبت کہاں ملے
تیرے بنا سکون نہیں من کو اب مگر
ہوں ہم کلام تجھ سے یہ مہلت کہاں ملے
اک عیب تم سمجھتے رہے الفتوں کو بھی
پر نفرتوں سے اپنی طبیعت کہاں ملے
ہم سر اٹھائیں در سے یہ سوچا نہیں کبھی
ہو غور بندگی پہ بھی ، فرصت کہاں ملے
مانا کہ واپسی کی نہیں آس دل کو کچھ
اٹھ جائیں راستے سے اجازت کہاں ملے
سر پر سوار شوق بہاروں کا اب نہیں
دل کو خزاؤں میں بھی لطافت کہاں ملے
تم کو لگا کے پہلو سے شاہد نہ رکھ سکے
پھر دیکھنے کو آئینہ طاقت کہاں ملے

0
34