گولی کے فیصلے
من نے چپکے سے کہا گولی ہے
سر نہ اپنا تو اٹھا گولی ہے
بیٹھ جا بن کے تو بزدل جگ میں
نام بھی دے گی مٹا گولی ہے
اس کی دہشت سے جہاں ڈرتا ہے
کاٹ دے گی یہ گلہ گولی ہے
اس کو پہچان کہاں اپنوں کی
پیر آگے نہ بڑھا گولی ہے
لب لرزتے ہی دو رہ جاتے ہیں
ان کی ہر بات بجا گولی ہے
خود بجھا دو اٹھے شعلے دل کے
موت انجام ، ہوا گولی ہے
بات حق کی نہ کرو تم شاہد
سچ ہی کہنے کی سزا گولی ہے

0
42