چپ جہاں ہے زباں فریادی کی
دھوم ہے اس ملی آزادی کی
لب پہ تالے ہیں ، قفل لکھنے پر
موت ہے کیسی یہ بہزادی کی
مفلسی ، بھوک ہے بازاروں میں
تیز تلوار ہے ، فولادی کی
خون سے تر ہے بدن لوگوں کا
باتیں ہیں شہر میں شہزادی کی
بے حسی چھائی ہے ایوانوں میں
نوحہ و غم نہ خبر شادی کی
ناز حاکم کو بہت ہے جس پر
کیسی تصویر ہے بربادی کی
کر کرم اپنا ، نظر شاہد پر
اے خدا سن لے دعا وادی کی

0
7