ہم وہ پیاسے ہیں کہ صحرا نہ سمندر پائیں |
ٹھوکریں کھائیں مگر راہیں نہ میسر پائیں |
پہلو میں اپنے زمانے بھی ہیں موتی لیکن |
ہم مگر ساتھ کہیں ان سا نہ ہمسر پائیں |
آنکھوں پر چھائی ہے تاریک سی چادر ایسے |
صبح اب ہم نہ کبھی اپنی منور پائیں |
عمر بھر ہم کو دیے دیر و حرم نے چکر |
نقش ان کا بھی نہ ہم دل پہ برابر پائیں |
اپنے خوش ہیں کہ ہمیں مار گرایا سب نے |
ہم نہ ہاتھوں میں مگر ان کے بھی خنجر پائیں |
مل گئی تشنگیٔ شوق سے فرصت ہم کو |
آج جو یار کو یادوں میں ہی اکثر پائیں |
کرب تنہائی سے نکلے تو یہ جانا شاہد |
لوگ ہم سا نہ کہیں پھر سے سکندر پائیں |
معلومات