رسم دنیا کی مٹا دی میں نے
شوق کو اور ہوا دی میں نے
زندگی دھوپ میں جلتے کاٹی
روز سورج کو دعا دی میں نے
بات لازم ہے اصولوں کی پر
ہجر کی خود کو سزا دی میں نے
کم نہ ہو جائے اذیت غم کی
دار پر جان چڑھا دی میں نے
منتظر آنکھیں گنوا کے بینا
طاق میں گڑیا بٹھا دی میں نے
چاندنی روٹھ گئی جب مجھ سے
شب اماوس کی بڑھا دی میں نے
آہٹیں گونجیں نہ اب پیروں کی
ریت راہوں میں بچھا دی میں نے
وجہ پوچھے نہ کوئی تنہائی کی
یاد کی بزم سجا دی میں نے
سر عقیدت میں جھکا کے شاہد
آخری شمع بجھا دی میں نے

7