| رسم دنیا کی مٹا دی میں نے |
| شوق کو اور ہوا دی میں نے |
| زندگی دھوپ میں جلتے کاٹی |
| روز سورج کو دعا دی میں نے |
| بات لازم ہے اصولوں کی پر |
| ہجر کی خود کو سزا دی میں نے |
| کم نہ ہو جائے اذیت غم کی |
| دار پر جان چڑھا دی میں نے |
| منتظر آنکھیں گنوا کے بینا |
| طاق میں گڑیا بٹھا دی میں نے |
| چاندنی روٹھ گئی جب مجھ سے |
| شب اماوس کی بڑھا دی میں نے |
| آہٹیں گونجیں نہ اب پیروں کی |
| ریت راہوں میں بچھا دی میں نے |
| وجہ پوچھے نہ کوئی تنہائی کی |
| یاد کی بزم سجا دی میں نے |
| سر عقیدت میں جھکا کے شاہد |
| آخری شمع بجھا دی میں نے |
معلومات