| آنکھ اور آب نہیں ہیں باقی |
| اشک نایاب نہیں ہیں باقی |
| اب کنول کھلتے نہیں دریا میں |
| چاند ، تالاب نہیں ہیں باقی |
| سر سے سنگیت جدا ہے دیکھو |
| ساز و مضراب نہیں ہیں باقی |
| سب کتابوں میں لکھا ہے لیکن |
| پیار ، آداب نہیں ہیں باقی |
| ایک آہٹ بھی نہیں اب آتی |
| آگ سرخاب نہیں ہیں باقی |
| من سے نکلا نہ وہ نکلا دل سے |
| گو کہ کچھ خواب نہیں ہیں باقی |
| زندگی یوں بھی گزر جاتی ہے |
| جام ، مے ناب نہیں ہیں باقی |
| بجھ گئی شمع امیدوں کی بھی |
| شہر محراب نہیں ہیں باقی |
| لوگ ہر سمت ہیں شاہد تیرے |
| یار احباب نہیں ہیں باقی |
معلومات