دل لگانے کی زمانے میں سزا پائی ہے
شب ہے پہلو سے لگی اور غم تنہائی ہے
اشک گرنے کی بھی آتی ہے صدا کانوں میں
رت ہے خاموش کھڑی سلب سی گویائی ہے
ہر دریچے میں مرے گھر کے بسی ہیں یادیں
اک اداسی مری ہر طاق سے در آئی ہے
آبلہ پا ہیں محبت کے سفر میں راہی
زندگی جن کے لئے تلخ سی سچائی ہے
سحر سب میرے سناتی ہے جہاں کو قصے
میں تماشا ہوں کوئی ، دنیا تماشائی ہے
ہم سے ہے دست و گریبان جنوں اپنا ہی
اب بھی بے تابی وہی ، باقی شکیبائی ہے
لوٹ کے شہر میں آئے نہ وہ جب تک شاہد
در سے ہم نے بھی نہ اٹھنے کی قسم کھائی ہے

0
39