آنکھ کے پی لیں جو پیمانے سے
پھر کہاں پیتے ہیں میخانے سے
خود سے کرتے ہیں وہ پہروں باتیں
جاتے ہیں یاروں کے یارانے سے
کیسے بیتی ہے جدائی کی شب
پوچھتے کیوں ہو یہ دیوانے سے
جسکو ہو جائے محبت اسکو
خوف آتا نہیں مر جانے سے
لوگ رسوائی جسے کہتے ہیں
دل ہے زندہ اسی افسانے سے
کون آیا ہے مری چاہت میں
آہٹیں آتی ہیں ویرانے سے
زخم دل تازہ رکھا ناصح نے
باز آیا نہ جو سمجھانے سے
کچھ ٹھہر گردش دوراں تو بھی
رت بھی بدلی ہے بدل جانے سے
زندگی کیوں ہے پریشاں گلشن
پھول کیوں ڈرتے ہیں مرجھانے سے
جانتا جگ ہے حقیقت کیونکر
شمع ملتی نہیں پروانے سے
رہنما جو تھے ہمارے شاہد
ہو گئے اندھے رہ دکھلانے سے

0
3