گلی ہے یار کی پر ، ہم زباں نہیں ملتا
دکھوں کے شہر میں اب رازداں نہیں ملتا
کھڑا ہوں دھوپ میں جلتے ہوئے زمانے کی
شجر کا سایہ مجھے سائباں نہیں ملتا
رکھوں کہاں پہ دکھوں سے بھری ہوئی گٹھڑی
مجھے تو گھر ، کبھی اپنا مکاں نہیں ملتا
کروں بھی کیسے میں اب اعتبار دنیا کا
ہزار پردے ہیں ، چہرہ عیاں نہیں ملتا
ہے رت بہار کی لیکن خزاں کا موسم ہے
کھلا گلاب بھی تو شادماں نہیں ملتا
نگاہیں ڈھونڈتی رہتی ہیں آسمانوں میں
زمیں کا رب مجھے کیوں مہرباں نہیں ملتا
عذاب کم نہیں شاہد ملی محبت کا
کہ آستینوں پہ خوں کا نشاں نہیں ملتا

0
2
20
سر ایک سوال ہے
یار کی گلی میں تو ہم زباں کا ہونا لازمی ہے ہی نہیں - یار کی گلی تو پیرس میں بھی ہو سکتی ہے وہاں تو پورا محلہ ہم زباں ہوگا ہی نہیں - پھر آپ یہ شکوہ کیوں کر رہے ہیں کہ یار کی گلی میں کوئی ہم زباں نہیں ملتا ؟
یہ بھی بتائیے کہ دکھوں کا وہ کونسا شہر ہوتا ہے جہاں رازداں ملتا ہو؟ آپ کو "اب" دکھوں کے شہر میں رازداں نہیں مل رہا مطلب پہلے ملتا تھا؟

0
ابھی آپ کو ایک عمر چاہئیے بھائی یہ سمجھنے کے لئے
شکریہ

0