گلی ہے یار کی پر ، ہم زباں نہیں ملتا |
دکھوں کے شہر میں اب رازداں نہیں ملتا |
کھڑا ہوں دھوپ میں جلتے ہوئے زمانے کی |
شجر کا سایہ مجھے سائباں نہیں ملتا |
رکھوں کہاں پہ دکھوں سے بھری ہوئی گٹھڑی |
مجھے تو گھر ، کبھی اپنا مکاں نہیں ملتا |
کروں بھی کیسے میں اب اعتبار دنیا کا |
ہزار پردے ہیں ، چہرہ عیاں نہیں ملتا |
ہے رت بہار کی لیکن خزاں کا موسم ہے |
کھلا گلاب بھی تو شادماں نہیں ملتا |
نگاہیں ڈھونڈتی رہتی ہیں آسمانوں میں |
زمیں کا رب مجھے کیوں مہرباں نہیں ملتا |
عذاب کم نہیں شاہد ملی محبت کا |
کہ آستینوں پہ خوں کا نشاں نہیں ملتا |
معلومات