زخم ملتے ہیں دلوں کو نئے ، آلام کبھی |
سر سے ٹلتی ہی نہیں گردش ایام کبھی |
آنکھ سے جاتے نہیں سائے کھلی زلفوں کے |
ہونٹ بھی تھکتے نہیں لیتے ہوئے نام کبھی |
درد بڑھتا ہی گیا جب بھی دعا کی رب سے |
دل کے بیمار کو آتا نہیں آرام کبھی |
مدتیں ہو گئیں سپنوں کا سفینہ ڈوبے |
چھین لیتی ہے سکون اب بھی مگر شام کبھی |
سینکڑوں من پہ خراشیں ہیں ہمارے لیکن |
یاد کے میلے مچا دیتے ہیں کہرام کبھی |
زندگی اپنی گزر جاتی بچھڑ کے تجھ سے |
ایسے ہوتے ہیں ہمیں بھی یونہی ابہام کبھی |
تشنگی دید کی جاتی نہیں دیکھیں جتنا |
حال پر ہنستے ہیں شاہد کے در و بام کبھی |
معلومات