زخم ملتے ہیں دلوں کو نئے ، آلام کبھی
سر سے ٹلتی ہی نہیں گردش ایام کبھی
آنکھ سے جاتے نہیں سائے کھلی زلفوں کے
ہونٹ بھی تھکتے نہیں لیتے ہوئے نام کبھی
درد بڑھتا ہی گیا جب بھی دعا کی رب سے
دل کے بیمار کو آتا نہیں آرام کبھی
مدتیں ہو گئیں سپنوں کا سفینہ ڈوبے
چھین لیتی ہے سکون اب بھی مگر شام کبھی
سینکڑوں من پہ خراشیں ہیں ہمارے لیکن
یاد کے میلے مچا دیتے ہیں کہرام کبھی
زندگی اپنی گزر جاتی بچھڑ کے تجھ سے
ایسے ہوتے ہیں ہمیں بھی یونہی ابہام کبھی
تشنگی دید کی جاتی نہیں دیکھیں جتنا
حال پر ہنستے ہیں شاہد کے در و بام کبھی

0
21