| گر منصفوں کے فیصلے سر عام بولتے |
| لوح و قلم ہمارے نہ سر بام بولتے |
| ہر اختیار ٹوٹتا شب کے حصار کا |
| بجھتے دیے اندھیروں میں سر شام بولتے |
| ہوتے نہ عندلیب گلستاں میں قید سے |
| گھر کے اسیر بے وجہ ، سر دام بولتے |
| رسوا نہ ہوتیں الفتیں گلیوں میں یار کی |
| سولی چڑھے اگر ، لگے الزام بولتے |
| سورج نے جسم کتنے جلائے ہیں دھوپ میں |
| اے کاش خود زبان سے آلام بولتے |
| خاموش سہہ بھی جاتے ملی لوگ سختیاں |
| حاکم کے گر نہ نام ، مگر کام بولتے |
| ہرپل کی ہے خبر انہیں پھر بھی نہ جانے کیوں |
| شاہد پتھروں کے اب نہیں اصنام بولتے |
معلومات