منزل سے آشنا تھا جو وہ نقش پا ملا
راہوں میں پل صراط کے اک راستہ ملا
من کو ملی ہے روشنی سورج کی ہر کرن
دل کے نگر میں ہم کو کوئی رہنما ملا
تجھ سے شکایتیں کیا ، تجھ سے کریں گلہ
چل کے تمہارے ساتھ ہمیں حوصلہ ملا
تیرے بنا ادھورا تھا عنواں حیات کا
تجھ سے ملی ہے خوشبو صبا کا پتہ ملا
اتری ہیں غربتیں مری پلکوں کے درمیاں
تیرے بغیر بس ہمیں دیپک بجھا ملا
محفل سے رنگ و نور کی ہر روشنی گئی
پھر شہر میں نہ ہم کو کوئی در کھلا ملا
دیکھے ہیں آج اپنے کئی دکھ نچوڑ کے
آہوں کے درمیاں نہ چھپا قہقہہ ملا
شاہد میں چاہتا ہوں کہ اب کچھ نیا کروں
سب کو بتاؤں جگ میں نہ ہم کو خدا ملا

0
23