شب یہ شاید مرے انجام کی ہے
چپ جو زنجیر ترے نام کی ہے
درد جوبن پہ ہے دھڑکن میں مری
اک ضرورت اسے گلفام کی ہے
پیش خیمہ ہے کسی طوفاں کا یہ
ورنہ کشتی مرے کس کام کی ہے
مست آنکھیں ہیں نہ کچھ عیش و طرب
صرف آواز تہی جام کی ہے
پوچھ گچھ ہے نہ کوئی آؤ بھگت
بے نیازی بھی تو انعام کی ہے
زندگی بوجھ اٹھایا ہے ترا
عمر گرچہ مرے آرام کی ہے
رات شاہد کو گوارا ہی نہیں
منتظر آنکھ مگر شام کی ہے

0
6