| خالی ہاتھوں کی لکیروں سے خزانہ نکلے |
| اپنی قسمت سے جدائی کا زمانہ نکلے |
| پھر کتابوں پہ جمی وقت کی مٹی اترے |
| بھولے ماضی کا دبا کوئی فسانہ نکلے |
| جھیل کے پانی میں بیٹھا کوئی پھینکے پتھر |
| شب کے منظر سے چھپا چاند سہانا نکلے |
| ایک عرصہ ہوا بچھڑے ہوئے ان کو ہم سے |
| ہجر کی رت سے کہیں ہنسنا ہنسانا نکلے |
| پھول شرمائے ملائم سی کھلی زلفوں میں |
| وصل سے یار کے کچھ پینا پلانا نکلے |
| سوکھ جائیں نہ سمندر کہیں ان آنکھوں کے |
| اس ملاقات سے جینے کا بہانہ نکلے |
| شہر کی گلیوں میں شاہد سجے پھر ویرانہ |
| چوٹ تازہ سے مگر درد پرانا نکلے |
معلومات