ایک محفل نئی جما دی ہے
یار نے بات جو بڑھا دی ہے
ذکر کر کے گئے زمانے کا
زندگی سامنے بچھا دی ہے
ٹوٹ جائے نہ حوصلہ ہمت
دھوپ چھاؤں میں سب ملا دی ہے
کر نہ دے غم اداس اب اس کو
ہر خوشی میں نے بھی بھلا دی ہے
گھونسلہ خود ہی میں بنا لوں گا
اس نے پرواز بس سکھا دی ہے
دیکھ کے ٹکڑا اڑتے بادل کا
آس بارش کی اک لگا لی ہے
خون دے کے چراغ کو شب بھر
صبح سورج کو پھر دکھا دی ہے
کیا ہے مجھ کو خراب دنیا نے
جان ساقی کی بھی چھڑا دی ہے
لاش شاہد اٹھاتا ہوں میں اب
سر کی دستار جو بچا لی ہے

0
7