| ایک محفل نئی جما دی ہے |
| یار نے بات جو بڑھا دی ہے |
| ذکر کر کے گئے زمانے کا |
| زندگی سامنے بچھا دی ہے |
| ٹوٹ جائے نہ حوصلہ ہمت |
| دھوپ چھاؤں میں سب ملا دی ہے |
| کر نہ دے غم اداس اب اس کو |
| ہر خوشی میں نے بھی بھلا دی ہے |
| گھونسلہ خود ہی میں بنا لوں گا |
| اس نے پرواز بس سکھا دی ہے |
| دیکھ کے ٹکڑا اڑتے بادل کا |
| آس بارش کی اک لگا لی ہے |
| خون دے کے چراغ کو شب بھر |
| صبح سورج کو پھر دکھا دی ہے |
| کیا ہے مجھ کو خراب دنیا نے |
| جان ساقی کی بھی چھڑا دی ہے |
| لاش شاہد اٹھاتا ہوں میں اب |
| سر کی دستار جو بچا لی ہے |
معلومات