مضطرب رہنا میری فطرت ہے
رات ، دن جلنا میری قسمت ہے
دیکھ کے رو نہ کرچیاں میری
ٹوٹنے کی مجھے تو عادت ہے
ہے کسے غم بکھر کے جانے کا
ہے غنیمت یہ تو سلامت ہے
ہنستے چہرے پہ ہے اداسی کیوں
چھوڑنا چاہو گر اجازت ہے
کھیلتا دل سے ہے جہاں سارا
عشق کا راستہ اذیت ہے
وحشتیں ہیں سفر ہے صحرا کا
درد کے شہر کی مسافت ہے
منتظر رات ہے چراغوں کی
شمع ، پروانہ ، یار ، چاہت ہے
ہے گلہ اس سے اک زمانے کو
پیار دل کی مگر ضرورت ہے
زندگی چار دن کی ہے شاہد
روٹھ کے بیٹھنا حماقت ہے

0
16