ہیں طلاطم پہ دھارے دریا کے
رو رہے ہیں نظارے دریا کے
کہہ رہے ہیں سفینے بہتے سب
ہیں یہ افسانے ہارے دریا کے
ہمتیں بھی نہیں ہیں باقی کچھ
روٹھے ہیں یوں ستارے دریا کے
اک چھپی ہے کہانی فرقت کی
پانی پانی ہیں دن گزارے دریا کے
سوچتا چاند بھی ہے ڈوبا سا
اک ہوں کیسے کنارے دریا کے
کیا بتائے وہ اپنی مجبوری
دل پہ چلتے ہیں آرے دریا کے
غم ملے ہیں اسے کئی دھوکے
سب ہیں جھوٹے سہارے دریا کے
وہ دکھائے کسے جگر شاہد
زخم تازہ ہیں سارے دریا کے

0
64