محبتوں میں ہمیں خود سے بے نیاز کرے
نگہ ء یار کبھی یوں بھی سرفراز کرے
رگ جاں سے وہ ہماری قریب ہو کے کبھی
بلند ہم کو کرے ، آشنائے راز کرے
سکوں دلوں کا ملے بھیگتی رتوں میں کوئی
عطا ہمیں جو ادائیں وہ دل نواز کرے
طویل زندگی کا ہے سفر یہ اس سے کہو
وہ زلف کھولے نہ دستے طلب دراز کرے
جنوں ہے عشق یا ہے خبط یہ عقیدتوں کا
جاں بے خودی میں پڑی کیسے امتیاز کرے
ہے قسمتوں میں مری دید یار کی کہ نہیں
یہ فیصلہ بھی کڑا ، منزل حجاز کرے
صلیب بدلے میں حاصل ہو الفتوں میں مجھے
ملوں جو خاک میں شاہد وفا بھی ناز کرے

0
68