جب خود سے ہی اپنا کوئی جھگڑا نہیں ہوتا |
دہلیز پہ پھر گھر کی تماشا نہیں ہوتا |
وہ درد بھی دروازے پہ ملتا ہے گلے سے |
قسمت کی لکیروں میں جو لکھا نہیں ہوتا |
ہوتی ہیں کہیں خاک پہ بکھری ہوئی بوندیں |
آنکھوں سے مگر اشکوں کا رشتہ نہیں ہوتا |
پڑتی ہے مرے پاؤں میں روزانہ وفا بھی |
ایسے کبھی جیسے اسے چاہا نہیں ہوتا |
ٹوٹا ہوں میں جس جھوٹی انا سے ہی ہمیشہ |
پھر دیکھ اسی کو میں گوارا نہیں ہوتا |
میں خواب کے منظر میں ہوں بس آج کا مہماں |
مہماں بھی وہ جس کو کہ بلایا نہیں ہوتا |
تمثیل میں دنیا کی بھی ایسا ہوں میں شاہد |
اس کھیل میں جیسے کوئی مجھ سا نہیں ہوتا |
معلومات