جب خود سے ہی اپنا کوئی جھگڑا نہیں ہوتا
دہلیز پہ پھر گھر کی تماشا نہیں ہوتا
وہ درد بھی دروازے پہ ملتا ہے گلے سے
قسمت کی لکیروں میں جو لکھا نہیں ہوتا
ہوتی ہیں کہیں خاک پہ بکھری ہوئی بوندیں
آنکھوں سے مگر اشکوں کا رشتہ نہیں ہوتا
پڑتی ہے مرے پاؤں میں روزانہ وفا بھی
ایسے کبھی جیسے اسے چاہا نہیں ہوتا
ٹوٹا ہوں میں جس جھوٹی انا سے ہی ہمیشہ
پھر دیکھ اسی کو میں گوارا نہیں ہوتا
میں خواب کے منظر میں ہوں بس آج کا مہماں
مہماں بھی وہ جس کو کہ بلایا نہیں ہوتا
تمثیل میں دنیا کی بھی ایسا ہوں میں شاہد
اس کھیل میں جیسے کوئی مجھ سا نہیں ہوتا

0
32