اپنوں کی الفتوں کو بھی بسمل بنا دیا
آسائشوں نے زیست کو مشکل بنا دیا
لے کے یہ زندگی ہمیں دی ہیں جو راحتیں
بستی کو وحشتوں نے بھی جنگل بنا دیا
بن کے کوئی تمنا جو برسی ہے بوند میں
اس نے بھی چشم گریاں کو پاگل بنا دیا
چھینا خرد سے فکر کا ہر بحر بے کراں
انسان کو طلب کا ہی اجہل بنا دیا
مٹی سمجھتا ہے جو بھی خواہش کو زاہدہ
اس کو خدا نے دیکھ مکمل بنا دیا

189