من کا اک خالی مکاں چھوڑ گیا
لے گیا سوچ ، گماں چھوڑ گیا
داغ سینے کے دکھاؤں میں کسے
اس کا ہر لفظ نشاں چھوڑ گیا
شکوہ ہو کس سے شکایت ہو کیا
درد وہ آہیں فغاں چھوڑ گیا
میری باقی نہیں پہچان کوئی
دل کے دیپک میں دھواں چھوڑ گیا
لکھ کے سادہ سا ورق نام مرے
نیم سی قفس میں جاں چھوڑ گیا
موج ہر روز نگلتی ہے مجھے
شام غم دے کے کہاں چھوڑ گیا
کھل نہ شاہد کا کہیں جائے بھرم
مستقل مجھ پہ خزاں چھوڑ گیا

1
22
واہ واہ
مستقل مجھ پہ خزاں چھوڑ گیا

0