| خیال یار سے خود کو نہال رکھتے ہیں |
| سجا کے چہروں پہ کافر جمال رکھتے ہیں |
| چھپا کے رکھتے ہیں غم ہجر میں ملے سارے |
| خوشی کے بدلے سنبھالے ملال رکھتے ہیں |
| کسی چمکتے ستارے سے چاند کی لو تک |
| وہ گردشوں میں سبھی ماہ و سال رکھتے ہیں |
| حریم ناز نہیں دور گو رسائی سے |
| سکوت ، راستے ان کو بے حال رکھتے ہیں |
| تمام عمر بھٹکتے ہیں دشت و صحرا میں |
| لگا کے سینے سے لیکن وصال رکھتے ہیں |
| سلگنے لگتے ہیں وہ شام پڑتے ہی ! شاہد |
| دلوں کے زخم بھی جگنو کمال رکھتے ہیں |
معلومات