خیال یار سے خود کو نہال رکھتے ہیں
سجا کے چہروں پہ کافر جمال رکھتے ہیں
چھپا کے رکھتے ہیں غم ہجر میں ملے سارے
خوشی کے بدلے سنبھالے ملال رکھتے ہیں
کسی چمکتے ستارے سے چاند کی لو تک
وہ گردشوں میں سبھی ماہ و سال رکھتے ہیں
حریم ناز نہیں دور گو رسائی سے
سکوت ، راستے ان کو بے حال رکھتے ہیں
تمام عمر بھٹکتے ہیں دشت و صحرا میں
لگا کے سینے سے لیکن وصال رکھتے ہیں
سلگنے لگتے ہیں وہ شام پڑتے ہی ! شاہد
دلوں کے زخم بھی جگنو کمال رکھتے ہیں

0
47