اونچی سی فصلیوں سے وہ دکھی برہم نکلے
پھر سے ظالم کے مقابل بڑا ماتم نکلے
درد کا شہر مٹے ، غم کا نگر ہو مٹی
دیکھنے کو بپا منظر کوئی عالم نکلے
دکھ سے آزاد ہو ہر رنج سے رب کی دھرتی
منہ چھپائے ہوئے قاتل مرا نادم نکلے
رنگ یوں اترے مصور کی بھی تصویروں میں
کالی زلفوں میں سجا پیار سے ہمدم نکلے
ناچتی تتلی سے اٹکھیلیاں کرتا بھنورا
پھول خوشبو میں دھلے نم کہیں شبنم نکلے
سب گناہوں سے ملے ہم کو معافی شاہد
پھر نہ جنت سے خدا کی کوئی آدم نکلے

0
40