Circle Image

محمد عثمان

@MUsman8Hanif

ز راز دہرِ کمتر گو

ارے داستاں اک سنو گے
سناؤ بھلا آج ایسا بھی کیا ہو گیا ہے
ارے کیا بتاؤں سہانی فضاؤں میں رم جھم کا منظر ۔ ارے تم نے باہر نکل کرکے دیکھا ہے ؟ کتنا حسیں آسماں ہے
نہیں میں تو بستر پہ لیٹا گھٹن پا رہا ہوں
ارے تف ہے تجھ پر۔
چلو خیر آگے سنو اب

0
28
یاد چاہت کو کیا جائے تو ڈر جاتے ہیں
اس کا چہرہ نظر آ جائے تو ڈر جاتے ہیں
ہم کہ محبوب تری بزم کے ٹھکرائے ہوئے
خواب بھی چہرہ دکھا جائے تو ڈر جاتے ہیں
ہم نے وہ حالتِ دل اپنی بنا رکھی ہے
اب کوئی شعر سنا جائے تو ڈر جاتے ہیں

0
4
85
دل میں خواب بُنتا ہوں
پھول کتنے چُنتا ہوں
جس سے ربط رکھتا ہوں
بے تحاشہ رکھتا ہوں
پر یہ سب بتانے میں
خوف مجھ کو آتا ہے

1
105
دسمبر آتا تو مجھ کو اک فکر یہ بھی ہوتی
جو تحفہ لینا ہے تیری خاطر
کہاں سے پیسوں کو جوڑنا ہے
کہاں سے کیا چیز دیکھنی ہے
تمہارے قد پر سجے گا کیسا
تمہاری آخر پسند کیا ہے

0
46
اس عشق کے الاؤ کو جلنے نہیں دیا
ماں باپ کی دعاؤں نے مرنے نہیں دیا
آزردگی ، جنون ، بیداری ، لہو اور اشک
ہم نے کوئی سراغ بھی مٹنے نہیں دیا
الفاظ ، درد ، یاد ، تڑپ ، شکل اور وفا
ہم نے کوئی چراغ بھی بجھنے نہیں دیا

0
60
کون تھا جس کہ سبھی زخم مٹانے تھا لگا
اپنا احساس مَیں ناصح کو سنانے تھا لگا
جن دنوں تم نے سبھی راستے مسدود کیے
*ان دنوں ابا کو مَیں تیرا بتانے تھا لگا*
میں نے ناصح کو بھی پھر بھاڑ طرف بھیج دیا
وہ بھی بیکار مجھے یار ستانے تھا لگا

0
50
سوتے ہیں ہم جاگ کے ویلے
جاگتے ہیں ہم یاد کے حیلے
ہر اک گھر کی رام کتھا یہ
اپنے گھر میں سب سوتیلے
کون سی دنیا پھر ہے جیتی
ہم نے کونسے پاپڑ بیلے

0
61
قسم اس درد، جاں فشانی کی
بھنگ اچھی ہے بس جوانی کی
اور بھی ہیں روایتیں لیکن
اک روایت ہے چرس، پانی کی
جس کو انجام تم سمجھتے ہو
ابتدا ہے یہ کش لگانی کی

0
77
آؤ ! تصویر تم کو دکھاؤں ذرا
نقش دل دار کا میں سناؤں ذرا
اس کا پورا بدن پھول و گلدان ہے
رنگ ، خوشبو ، صبا اس کی مسکان ہے
زلفیں اس کی ہیں الجھی ہوئی ٹہنیاں
خوب صورت ، حسیں اس کی دو پُتلیاں

0
67
جو چاکِ دل نہ سیے پھر وہ دلبری کیا ہے
جو دے نہ درسِ خودی پھر وہ شاعری کیا ہے
اگر نہیں یہ تماشائے کُن تا قُم کوئی
بتاؤ تم ہی مجھے پھر ، یہ زندگی کیا ہے
تمہارا سجدہ ہے مشروط ظلمتِ شب سے
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے

0
85
زیست میں ہے وقت نے وہ دور برپا کر رکھا
اک سمندر نے ندی پر زور برپا کر رکھا
سنسناہٹ دل پہ طاری اور بدن آزردہ جاں
ایک خاموشی نے ہے سب شور برپا کر رکھا
وہ ہمیں دے اک اذیت اور پھر احسان دے
اس تماشے نے ہے دل میں چور برپا کر رکھا

0
60
تھی تاریخ انیس تو دن تھا جمعہ
مہینہ اگست اور یہی وقت کوئی
سوا پانچ ۔جب آگہی نے مجھے آ
کے چوما، اُسی وقت سے لے کے اب تک
مرا جسم اک شعلۂ بے طرب ہے
کہ جیسے کوئی ماہی بے آب تڑپے

0
79
میں نے اک خواب دیکھا ہے
جس میں نظم اک لکھی تھی
اے محبوب ! تجھ پر ، ترے حسن پر تھی
یا تجھ پر نہیں بلکہ اوہام کے اُن تلاطم پہ تھی
جن پہ میں سر بسر موجزن تھا
یا پھر اُس گہرے احساس کی مد پہ تھی

0
49
کون سا اپنا ایسا ماضی
تم سے ہو کیسی ناراضی
سرخ زمین یا بنجر بادل
جو بھی کہو تم حق ہو قاضی
میرا سوال بھلا ہو کیسے
آسماں کونسا میری اراضی

0
82
جس کو بھی دیکھا غزل اس کو سنا دی اپنی
یعنی ہر بات عداوت کی یوں رد ہی کردی
ایک چہرے کے لیے باقی سبھی کو چھوڑا
ارے عثمان میاں تم نے تو حد ہی کردی

0
57
غم مناؤں گا جب ساتھ ہوگا صنم
دل دِِکھاؤں گا جب ساتھ ہوگا صنم
پھول ، کلیاں ، گلابوں سے کہہ آیا ہوں
پھر میں آؤں گا جب ساتھ ہوگا صنم
چاند ، سورج ، ستارو یہ تم جان لو
تم کو چھوؤں گا جب ساتھ ہوگا صنم

0
44
جس شخص پہ لوگ یقین کریں
وہ سیاسی مرگ ، مکین کریں
پھر آگ لگا سُلگاؤ تم
مرے شہری جس میں جلاؤ تم
اُس شخص کو مارو، گراؤ تم
جس شخص پہ لوگ یقین کریں

0
70
ہم نے شب ہے آنکھوں کاٹی ، ہم نے دن میں زہر پیا ہے
ہم نے تیری یاد جلائی ، ہم نے تیرا ذکر کیا ہے
یک طرفہ سی اس الجھن میں ، یک طرفہ سی اس چاہت میں
دل کے روگ کا کانٹا لے کر ، ہم نے بھی کیا وقت جیا ہے!
غیر کے سامنے ہنستے بھی ہیں ، غیر کو رو دکھلاتے بھی ہیں
میرے سامنے بس اک چپ سی ، واہ وا کیا ہی شرم و حیا ہے

0
59
ہمارے ہاتھ کا دھاگہ کہیں گھاگھر نہ ہو جائے
ہمارا کانچ کا برتن ترا گاگر نہ ہو جائے
ابھی جذبوں کی برکھا ہے ، ابھی تو چاند راتیں ہیں
ابھی مشکل پڑے گی جب ، تُو پھر لاغر نہ ہو جائے!
جو بیٹھا ہے خا موشی سے اسے چھیڑو نہ تم یارو
کوئی دریا اچھل کر پھر کوئی ساگر نہ ہو جائے

0
65
نعت نبی صی اللہ علیہ وآلہ وسلم
جس نے طائف میں بھی کی دعائے صبا
رحمت و پیار کا جام جس نے دیا
آپ آقا و مولیٰ و رہبر مرے
کون ہے اس جہاں میں برابر ترے
ہے زیارت کی خواہش پیمبر کرے

0
60
شعر کی بحر کے اوزان کا قاتل نکلا
اپنی ہی ذات کے وجدان کا قاتل نکلا
امتحاں میری نا کامی کا تھا تکتے ہوئے منھ
سو خوشی پانے کے امکان کا قاتل نکلا
دی تسلی بھی بہت اور دلاسہ بھی کیا
اور پھر پاس کے اذہان کا قاتل نکلا

0
66
یہ سب غم ،دکھ ،غزل اور حزن گاتے جا رہے ہیں
مگر پھر بھی دِوانے اب ہنساتے جا رہے ہیں
اگرچہ پَر ہیں زخمی، دل شکستہ، جان بے جاں
پرندے پر ہوا کو اب اُڑاتے جا رہے ہیں
ہے سب کو علم اس رستے خسارے ہیں خسارے
مگر فرہاد آتے ، گنگناتے جا رہے ہیں

0
65
میں نہیں جانتا وہ کون ہے ، کیا لگتی ہے
کیا کہوں ! وہ تو حقیقت میں صبا لگتی ہے
میں نے ہر انگ میں بہتا ہوا پایا اس کو
پھر بھی ہر آن جدا یار جدا لگتی ہے
میں تری ذات کی خاطر تھا جنوں میں نکلا
تیری خاطر تو ہر آندھی بھی ہوا لگتی ہے

0
70
آج تو اس دلِ برباد پہ ہنسنا آیا
آج کچھ یاد کیا ، یاد پہ ہنسنا آیا
جب میں الفاظ کے معنی کی ہوں تہہ تک پہنچا
شعر پر ملتی ہوئی داد پہ ہنسنا آیا
جب نئے عشق میں اک شخص علَم لے کے اٹھا
اک نئے ڈوبتے من باد پہ ہنسنا آیا

0
54
فرض کرو ہم اہل علم ہیں ، فرض کرو ہم پڑھتے ہیں
فرض کرو یہ دونوں باتیں ، جھوٹی ہیں ہم ڈرتے ہیں
فرض کرو یہ چہرے اپنے علم کے گیت سناتے ہیں
فرض کرو ہم جہل کو اپنے دل میں خوب چھپاتے ہیں
فرض کرو تم ، پڑھنے کے ہم ڈھونڈتے لاکھ بہانے ہیں
فرض کرو ہم علم کے وارث ، علم کے ہی مستانے ہیں

0
87
دل مچل جاتا ہے، تم ساتھ رہو
غم پگھل جاتا ہے، تم ساتھ رہو
دوری ہو جان نکل جاتی ہے یہ
دم سنبھل جاتا ہے، تم ساتھ رہو
میری زلفوں کو اگر تم چھو لو
خم نکل جاتا ہے، تم ساتھ رہو

0
66
دل مچل جاتا ہے، تم ساتھ رہو
غم پگھل جاتا ہے، تم ساتھ رہو
دوری ہو جان نکل جاتی ہے یہ
دم سنبھل جاتا ہے، تم ساتھ رہو
میری زلفوں کو اگر تم چھو لو
خم نکل جاتا ہے، تم ساتھ رہو

0
51
یاد لیے پھر ہم بھی جلے ہیں تیری بھونی گلیوں میں
اشک بہی ہے ، رنج ہوئی ہے اور کیا ہونی گلیوں میں
سب کو لوگ میسر تھے پھر ، سب کی اپنی خوشیاں تھیں
ایک ہمی آوارہ نکلے شہر کی سُونی گلیوں میں
مت پوچھو۔۔۔ حالت کیسی تھی پھر ، کیا کیا سڑکیں ناپی تھیں
ایک تھا لمبا سایہ اپنا اور تھے بُونی گلیوں میں

0
77
تیری یادوں سے کام ہوتے ہیں
سو پھر ان میں خرام ہوتے ہیں
ہم نومبر کے پہلے پہلے دن
تجھ سے پھر ہم کلام ہوتے ہیں
پھر سے لکھتے ہیں ایک خط تم کو
جس میں پیہم سلام ہوتے ہیں

0
48
حمد
اپنے ہی ظلم کا محکوم ہوں ، بے کار ہوں میں
میں خدا تیرا خطا کار ہوں ، معصار ہوں میں
میں نے احکام ترے کتنے بھلائے ہوئے ہیں
دل میں سب خواب ہی دنیا کے بسائے ہوئے ہیں
اور تو دیکھ اِسی کے ہی ستائے ہوئے ہیں

0
80
میں ڈوبا تھا جنونِ تخت میں آہستہ آہستہ
ملی وحشت مجھے پھر دشت میں آہستہ آہستہ
جو خوشیاں تھیں وہ لحظہ میں گزر جانے کو آئی تھیں
مگر گزرا ہے لمحہ ، کَشت میں آہستہ آہستہ
جو لمحے ہجر کے ہیں چاہتا ہوں پل گزر جائیں
سبھی گھڑیاں مگر اس وقت میں آہستہ آہستہ

0
81
کیا ہے اپنا ، تو ہے بے گانہ کیا ؟
دل بجھا ہو تو پھر ہنسانا کیا !
میں نے سب داستان لکھ لی تھی
پھر خیال آیا اب دکھانا کیا ؟
وقتی جنبش تھی ہر عنایت وہ
اب وُہی خواب پھر سنانا کیا ؟

0
68
سلگتی رگ پہ لگے تیر سارے کامل تھے
مجھے یقین ہے ، دشمن میں دوست شامل تھے
فصیلِ شہر گواہی یہ دے رہی ہے مجھے
یہاں کے باسی بڑے اونچے قد کے حامل تھے
تڑپ تڑپ کے دعا دے ، برا نا چاہے کچھ
ترے قفس میں ہم ایسے بھی ایک بسمل تھے

0
67
تم سے ملنے کا جو مہینہ تھا
مرگِ جاں کا وہ پہلا زینہ تھا
پھر میں تنہا تھا اک اذیت میں
گرچہ ہمراہ اک سفینہ تھا
سردیوں میں ملا وصال و ہجر
جسم سارے سے تر پسینہ تھا

0
56
رازداں حق کا طلب گار ہوا ہے
کیا ہی اچھا سا وفادار ہوا ہے!
وہ تو ہر وقت مرا دوست رہا تھا
یہ تو میں ہوں کہ جو بیزار ہوا ہے
اس کی ہر بات کو بیکار سا جانو
کب سے یہ وصل کا حقدار ہوا ہے

0
62
سوچ اگر باہر آ جائے اگر ہم دل کے خیالات جان لیں ایک دوسرے کے تو اپنے ہوش کھو بیٹھے کیونکہ اکثریت نے برائی کو جگہ دی رکھی ہے نفرت کو بغض کو کینہ کو یہ تو خدا کا ظرف ہے وہ سب جانتا ہے اور خاموش رہتا ہے ۔ دلوں کے حال تو اللہ جانتا ہے۔اور وہی ذات ہے جو یہ جاننے کا حق رکھتی ہے ہر شخص میں برائیاں ہوتی ہیں اور کیا پتہ آپ ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہوں جن کی اچھائی برائی پہ حاوی رہتی ہے۔?

0
66
منفرد ہو تو یہ لازم ہے دکھائی دو تم
منفرد ہونے کا مطلب نہیں گم نام رہو

62
"صرف کوئی ایک شخص جذبات کا محور کیسے ہو سکتا ہے"منچلے دوست! تمہاری کم عقلی پہ رونا آیا۔ تمہارا یہ کہنا "دوسرا آپشن ہو، تین چار لوگ تو ہوں کم از کم"بنام ص۔ح

0
74
اس مقرر کی ہے تصویر ملی جو مجھ کو
کیا ہی خوب! وہ تصویر بھی اعزازی ہے

0
65
آج کا جاگنا بے کار نہیں گزرا ہے
اس کی تصویر ملی ، رشک سے مرنا چاہا

0
63
میں کسی اور سے مخاطب ہوں
ناپیے ! اپنا راستہ ، صاحب
دو ہی تو خوبیاں ہیں عثماں میں
کج ادا اور بے حیا ! صاحب

0
73
تم کو نفرت ہے تو چپ چاپ نکل جاؤ ابھی
یوں محبت میں عداوت نہیں کرتے ہوتے

0
60
قدرِ مخلص میں ہیں بہت یکتا
آہا ، آئیے! مل کے ہنستے ہیں

0
69
جتنے خواب بُنتا ہوں،جتنے کانچ لاتا ہوں
پل میں ٹوٹ جاتے ہیں، لوگ بھول جاتے ہیں
وقت بیت جاتا ہےآنسوؤں کی بارش میں
سال بیت جانے کی خوشی جب مناتے ہیں

0
67
پہلے روح کو پیدا کیا گیا اور پھر روح کے سانچے کے مطابق انسان کا جسم بنایا گیا اور پھر اس میں وہ روح ڈالی گئی۔روح سمجھیے نا کہ روح ہے کیا روح تو اللہ کا حکم ہے  اللہ کا حکم وقت مقررہ تک جسم میں موجود رہتا ہے۔اگر صرف جسم کو اتارا جاتا تو اس حیات کا مقصد ہی کیا ہونا تھا یہ حیات تو امتحان ہے کہ اللہ کے احکام پورے کرو

0
65
اس قوم کے باب حکمرانی میں ایک دور مشرف کا دور ۔۔۔ تقریباً پندرہ برس قبل۔ایک ایسا دور جس میں Raymond Devis جیسا دشمن ہاتھ آنے کے باوجود رہا ہو کے واپس چلا جاتا ہے۔ Raymond Devis ایک ایسا ملک دشمن ایجنٹ جو بلوچستان کو تباہ و برباد کرنے کے اراداہ سے آیا تھا۔ جو موساد، ایم نائن  اور سی آئی اے کا مہرہ تھا۔ قوم چیختی رہی، چلاتی رہی، اپنا درد، اپنی آہ اور نالاں نارسا بلند کرتے کرتے ٹوٹ کر بکھر گئی کہ Raymond Devis کو واپس نہ کیا جائے۔ مگر امریکہ کے غلام حکمرانوں نے رات کے اندھیرے میں دنیاوی قوت کے حامل امریکہ( جسے وہ دیوتا مانتے تھے) کے  حوالے کیا کہ یہ قوم اپنے جذبات میں ان دو ٹکے کے اشاروں پہ ناچنے والے غلام حکمرانوں کے لیے خطرہ نہ بنے۔ آج پندرہ برس بعد، اسی سر زمین پہ ایک دشمن ایجنٹ کو رہا کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ایک ایسے ملک کا ایجنٹ جس کے ساتھ قیام مملکت سے ہی نہ صرف دشمنی رہی بلکہ چار جنگیں پہ لڑی جا چکی۔ ایک ایسا جو بلوچستان کو خانہ جنگی کا مرکز بنا کے ملک کو دہشت گردی میں جھونکنے آیا تھا۔ پندرہ برس کے اندر یہ قوم، ملت ، ریاست اتنی بکھر گئی کہ آج یہ ازلی دشمن کے آگے جھک گئی۔آج یہ

0
36
غرناطہ سقوط غرناطہ وہ سیاہ باب وہ کرب وہ احساس میں وہاں نہیں تھا۔ غرناطہ پہ لٹیروں نہ میرے پیدا ہونے 5 یا 6 سو سال پہلے قبضہ کیا۔ مگر آج بھی سقوط غرناطہ کا خیال آتا ہے تو دل چیخ اٹھتا ہے۔ اور پھر احساسات کا تسلسل جب بنگلہ دیش تک پہنچتا ہے تو روح کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔آج عیسائی ریاستوں کی فلاح کی بات کرنے والے ظالمو!تاریخ پڑھ لو ۔عیسائیت کی نرم دلی اور منظم پن کی دلیلیں دینے والوایک دفعہ بس ایک اندھیری رات کے مسافر پڑھ لونسیم حجازی کی کتاب کلیسا اور آگ کا مطالعہ کر لو۔اگر تم چیخ نہ اٹھو، اگر تمہارے جسم تھرتھرا نہ جائیں۔ اگر تہماری روح کانپ نہ جائے۔تو اپنی ضمیر کی خبر لینا۔ اگر تاریخ کے ان حقائق کو جان لینے کے بعد بھی تمہاری آنکھیں نہ کھلیں ، تمہارے جذبات تمہیں پر سکون رہنے دیں ۔ تو اس بات کا یقین کر لینا کہ تم مردوں سسے بد تر ہو۔ تمہارے ضمیر کب کے مر چکے ہیں۔ تمہاری انسانیت کا قلعہ قمع ہو چکا ہے۔ کیوں آخر سبق نہیں لے رہے ہم تاریخ سے۔ سقوط غرناطہ سے تاریخ کے اندوہناک باب کا آغاز ہوا ۔ وقت دوڑتا گیا۔ یہ.قوم ۔ یہ ملت اپنے ضمیر کھو رہی۔ سقوط بغداد ہوا۔ اس قوم میں شعور کی چمک

0
48
خودی خود شناسی کا وہ مقام ہے جہاں کوئی شخص اپنی سب سے اعلیٰ و ارفع پرفارمنس سے دنیا کو منور کر سکتا ہےخودی وہ معراج ہے جس کے بعد انسان وقت، حالات اور جگہ کی بندشوں سے ماورا ہو جاتا ہے?

0
130
مسکراہٹآج میری ملاقات ایک برخوردار سے ہوئی۔ وہ امتحان گاہ کے دروازے پہ اترے تو دروازے کی جانب دیکھ کے مسکرانے لگے۔ پھر تھوڑا سنجیدہ ہوئے اور اندر داخل ہوئے۔ اندر داخل ہوتے ہی بے اختیار مسلسل مسکرانے لگے۔ خود ہی خود مسکرا رہے تھے۔ ایسے تھا جیسے وہاں ان کا کوئی شناسا نہ ہو اور انہیں کسی کی موجودگی کا پتہ نہ ہو۔ امتحان کے ہال میں داخل ہوئے تو مسکرانے لگے۔ ممتحن نے موبائل پہ اعتراض کیا تو رائٹنگ میز پہ موبائل آف کرکے رکھتے ہوئے ممتحن کو دیکھے گئے اور ایسے مسکراتے رہے کہ ممتحن کشمکش کا شکار ہو گیا۔ جوابی کاپی دی گئی تو ہدایات پڑھے بغیر پہلا صفحہ فِل کیا۔ جس میں رسم الخط کی غلطی ہوگئی۔ جب غلطی معلوم ہوئی تو بے اختیار مسکرانے لگے۔ قریب ایک امتحان گزار بہت فرساں نظر آ رہا تھا اس کی حالت دیکھ کے وہ مسکرا دیئے جیسے کہ محظوظ ہوئے ہوں۔ مسکراتے ہوئے اپنے ہاتھ مسلے تو اندازہ ہوا، ہاتھ پسینہ ، پسینہ ہیں۔ اپنی حالت کا یہ اندازہ ہوتے ہی وہ زندہ دلی سے مسکرائے۔ ایک خاتون کو اپنی مطلوبہ جگہ نہیں مل رہی تھی۔ وہ طائرانہ نظر سے اُسے دیکھے گئے۔ طبیعت کے برعکس مسلسل اسے دیکھنے لگے۔محترمہ نے ہر ایک سیٹ چ

0
34
Life is just to judge you that whether you follow the way straight.It's not more than the measurements. So give back the positive perception to the world. So, great responses can recorded

0
67
امانت وہ مقدس احکام ہیں جو روح، جسم، فلسفہ اور دل کے تمام امور کا حل پیش کرتے ہیں۔وہ مقدس کتاب جو آئین حیات ہے۔ جس میں انسانیت کی فلاح کا نظام ہے۔ کاش میری زندگی، اس مقدس امانت کے ایک چھوٹے سے حکم کی تکمیل میں کام آجائے۔لیکن افسوس میں کردار نہیں. گفتار ہوں میں بے عمل شخص ہوں۔دعا ہے کہ باعمل ہو جاؤں

0
42
مشرق سے ابھرتا ہوا سورج نہیں دکھتا
میں آٹھ بجے اٹھ کے اداس اس پہ ہوں رہتا۔

0
76
ارے چھوڑو پتا ہے سب
تہجد تو نے پڑھنی جو

0
86
منزلیں حسین ہوں تو کانٹوں بھرا رستہ بھی خاموشی سےکٹتا ہے?

0
63
سنگ و وحشت میں اب با صفا کون ہے
بے وفا کون ہے ، با وفا کون ہے
وہ کہ مہتاب خد میں پروئے ہوئے
اک حسیں زلف بھی ہیں سموئے ہوئے
دل کو احساس میں بھی ڈبوئے ہوئے
وہ بھی مستی کی محفل میں کھوئے ہوئے

0
54
تمہاری جانب سے یار اب میں کوئی بہانا نہیں سنوں گا
وہ کہہ رہا تھا "کوئی کہانی ، کوئی فسانہ نہیں سنوں گا "
تم اپنی لائف کی ساری خوشیاں کماؤ محنت سے یار عثماں
یہ غم تمہارا ، بے کار لڑکی پہ دل کا آنا ، نہیں سنوں گا

0
92
ماں کو دیکھ ہنسنے کی ایک وجہ ملتی ہے
ورنہ تو اُکاڑہ سے بس اک آہ ملتی ہے
ماں عظیم ہستی ہے ، ماں کا لمس درماں ہے
باپ سے بصیرت کی اک نگاہ ملتی ہے
حوصلوں کی دنیا میں ، پیار کی منازل میں
باپ ایسی ہستی ہے جو رفاہ ملتی ہے

0
80
حوصلہ عشق کا پسپا نہیں دیکھا جاتا
زندگی یوں تجھے رسوا نہیں دیکھا جاتا
آ مرے پیار گلے تجھ کو لگا لوں اپنے
رنج میں آنسو کو بہتا نہیں دیکھا جاتا
تو مرے پاس ذرا آ کہ چلیں باغ کو ہم
پھول ، رنگت کو تو تنہا نہیں دیکھا جاتا

0
71
پھر سے اک رنج رائیگانی ہے
اپنی وحشت کی یہ کہانی ہے
رنج ، غم ، کرب ، غصہ اور دکھ ہے
مگر اُس کو ہنسی سنانی ہے
بات وہ جاننے کو سویا نہیں
رات نے مجھ کو جو بتانی ہے

0
62
غم کی بستی میں پھرتے رہتے ہیں
کیوں اذیت یہ روز سہتے ہیں
زندگی! تجھ سے بے یقینی ہے
دیکھ ہم روٹھے روٹھے پھرتے ہیں
آسماں ، سوچ کی بلندی ہے
ہم زمیں پر ہی بیٹھے رہتے ہیں

0
79
رنگ اترا ہے ترا تجھ کو بتاؤں گا نہیں
جا مرے دوست! تجھے شیشہ دکھاؤں گا نہیں
ہم سے اُس نے بھی عداوت کو چھپا رکھا تھا
جو یہ کہتا تھا ، کبھی پیار چھپاؤں گا نہیں
تو اگر دیکھ کے رخ پھیرتا پھرتا ہے اب
پُر سکوں رہ کہ تجھے اب کے پکاروں گا نہیں

0
66
ہم نئے دور کی ترتیب کا پہلا پتھر
نفرت و دوری کو تادیب کا پہلا پتھر
ہم ، نوا سنج فغاں ، شعلۂ جوالاں بھی ہم
اک نئے عہد کی ترغیب کا پہلا پتھر
نہ ہی ہیں شکوہ کناں اور نا محرومِ یقیں
ہم تو وحدت کی ہیں تنصیب کا پہلا پتھر

0
97
وہ سارا کچھ ہی جھوٹ تھا
وہ پیار ، چاہ ، الفتیں
مذاق تھے تخیّلات
وہ ، اور ، سب فضول تھا
اُس اک حسیں مذاق میں
مذاق سب ہے بن گیا

0
59
خالی بینچ پہ بیٹھا ہوں میں
ساتھ میں ایک خموشی سی ہے
سامنے سبزہ سبزہ ہے سب
دائیں طرف جو نظر دوڑائیں
ڈھابے پر ہے رش کی صورت
لڑکے مست ہی مست سے ہیں سب

0
161
اُلّو ہوں بھئی اُلّو ہوں
دیکھو لو پکا ہی اُلّو ہوں
میری شان نرالی ہے
گفتگو میری خالی ہے
بس پہ سفر جب کرتا ہوں
چپ سے جاگتے رہتا ہوں

0
63
ہے مشقِ سخن جاری ، سی۔اے کی اذیت بھی
دونوں میں تلاطم ہے ، دونوں میں مشقت بھی
نا پیار میں کامل ہوں ، نا علم میں اکمل ہوں
بے چین طبیعت ہے ، دو طرفہ ہزیمت بھی
نا گھر میں سکوں کوئی ، نا دشت میں راحت ہے
آوارہ جنوں دل ہے ، بے فیض طبیعت بھی

0
80
اک اور خسارہ کر لوں کیا
پھر عشق دوبارہ کر لوں کیا
وہ آنچل آج ہیں سرکاتے
اک خاص نظارہ کر لوں کیا
پھر شام کا سورج اترا ہے
اب غم سے گزارہ کر لوں کیا

1
83
درد ہے، رنج ہے، اذیت ہے
جلتی بجھتی مری طبیعت ہے
نیند سے عاری شب کی شب ہے مری
دل سے رونے کی یار نیت ہے
کتنی کوشش کی، خط نہ لکھ پائے
مجھ پہ کتنی ہی یار دہشت ہے

99
اپنی شوریدہ سری جوش کا دیوان میاں
ہم اگر بول پڑیں شہر میں سر کٹتے ہیں
یونہی ہنستا ہوا خوش باش ہے سمجھا ہم کو
ہم لبھی غم جو سنائیں تو جگر کٹتے ہیں

74
دل یہ مشکور ہے آپ ہم سے ملے
میری باتیں سنیں دیکھی حیرت مری
سچ کہیں ہم کو یہ سب بھلا ہے لگا
بس سدا خوش رہیں یہ دعا ہے مری
پھر پلائیں گے کافی* کبھی بَکس** پر
ایک دن جب بنیں گے بڑے آدمی

99
حوصلہ ہو تو پھر پکارا کر
ورنہ چپکے سے زہر کھایا کر
یوں نا کانٹوں سے لَو لگایا کر
یاد آئے تو پھر پکارا کر
پھول سب سے حسیں ہے چنبیلی
اِس کی بھینی مہک کو سونگھا کر

0
81
یہ تغافل تری ہم کو معلوم ہے
یہ کنارہ کشی ہم کو معلوم ہے
ہم بھی اندھے نہیں یار بہرے نہیں
ہم بھی گونگے نہیں دام چہرے نہیں
یہ زمانے کے چکر سمجھتا ہوں میں
رقص ارشاد ہو پھر چہکتا ہوں میں

0
89
کیوں اُن کو ہو جو پاس کہ وہ رابطہ کریں!
ہم بھی تھے کشمکش میں کریں رابطہ یا نا؟

0
137
میں نہیں چاہتا اڑ جائے یہ خوشبو تیری
میں نا چاہوں گا کبھی سر سے دوپٹہ سرکے
ہم تو اس بات پہ خوش ہوں گے اگر تم جاناں
پڑھنے لندن میں بھی جاؤ جو، تَو پردہ کرکے

84
ذہن نے یہ کہا "ڈوبے نا سفینہ کوئی"
جا کے سیکھ آؤ نا، مرنے کا قرینہ کوئی
زہر قاتل تھا مگر پھر بھی پیا ہے ہم نے
تجھ سے دوری کا یہ جینا بھی تھا جینا کوئی
ہم نے ہر نس کو اذیت کے دیے ہیں نشتر
حوصلہ ہو تو مری لاش کو سینا کوئی

72
ہم محبت میں تری روز بکھر جاتے ہیں
قتل کرنے کے تمہیں لاکھ ہنر آتے ہیں
تم تو سورج ہو جو نظروں سے لپٹ جاتا ہے
ہم وہ تارے ہیں جو مدھم سے نظر آتے ہیں
ایک افواہ ہوئی بزم میں آئیں گے صنم
تیزی قدموں سے سبھی یار ادھر آتے ہیں

0
77
بس اِسی آس پہ ،کوئی تو سہارا ہوگا
ڈوبتے شخص نے اک بار پکارا ہوگا
آخری سانس تھی اور پاس نہیں تھا کوئی
لب پہ اُس دم بھی فقط نام تمہارا ہوگا
تم نے تڑپایا ہمیں، خوب ہے رنجور کیا
کون کہتے ہیں محبت نے نکھارا ہوگا

0
91
یہ دوست آئیں سبھی محفلِ ہنسائی ملے
یہ ساتھ میں بیٹھو کچھ تو آشنائی ملے
رہا ہمیں شوقِ بَلّے* کا تو بس اتنا
ہم آٹھوں دوست ملیں اور آشنائی ملے
تمہارے وصل کے لمحات یوں تھے اترے صنم
کہ جیسے پوہ اک میں سرسرِ جُلائی** ملے

0
70
مرے خاموش لب ہوتے ہیں مَیں جب کہہ نہیں پاتا
مری ماں تب دلوں کی آہٹیں بھی جان جاتی ہے
کہاں ہے تجربہ اتنا کسی ماہر معالج کو
مری آواز سنتے ہی خرابی جان جاتی ہے

0
81
وہ یومِ جمعہ اک مبارک سا دن تھا،
وہ اُنِیّس اگست ،وقت تھا پانچ یا پھر
سوا پانچ ۔جب آگہی نے مجھے آ
کے چوما، اُسی وقت سے لے کے اب تک
مرا جسم اک شعلۂ بے طرب ہے
کہ جیسے کوئی ماہی بے آب تڑپے

0
68
محبت، حسن، چاہت پر کوئی تقریر لازم ہے
اگر تم ساتھ ہو میرے تو پھر تصویر لازم ہے
جہاں دولت کا سکّہ ہو، جہاں مجبور بکتے ہوں
وہاں پر پھر مرے یارا کوئی جاگیر لازم ہے
اگر مظلوم کو بس درس ملتا ہو اطاعت کا
وہاں کے ہر مجدد کی کرو، تکفیر لازم ہے۔

0
174
ملکِ آزاد سے الفت نہیں بھولی جاتی
آگ اور خوں کی حقیقت نہیں بھولی جاتی
چاہے جاپان کے مصروف سے خطے میں رہیں
سبز پرچم سے عقیدت نہیں بھولی جاتی

83
وہ دیکھو بچو چاند ہے نکلا
اور وہ سورج دیکھو ڈوبا
وہ وہ دیکھو بچو دیکھو نا
دیکھو چاند ہے آدھا ٹوٹا
ساتھ ہے اپنا ستارا اس کا
تاروں کا پیارا جھرمٹ اس کا

0
81
اجنبی علاقے میں
ہم کسی بہانے سے
تم میں محو رہتے ہیں
تم ہماری دولت ہو
تم پٹہ خزانہ ہو
تم ہی ہو مری ہمسر

0
93
ہم روئے تھے ہنسے تھے ابھی کل کی بات ہے
ہم ساتھ جا رہے تھے ابھی کل کی بات ہے
رنجور دل شکستہ اداس اور پا بہ گل
کتنے ہی غم سہے تھے ابھی کل کی بات ہے
آوارہ بے مراد لا حاصل فضول ہم
کتنا جلے بجھے تھے ابھی کل کی بات ہے

0
76
ہر ایک خواب سے وہ خبردار ہو گئے
لگتا ہے پیار والے بھی اخبار ہو گئے
ژولیدہ حال چہرے اداسی کی داستاں
اس عہد کے جوان تو بیکار ہو گئے
یہ خلیے میرے یار سلگنے ہی لگ گئے
جب حسن کی نظر سے یہ بیمار ہوگئے

0
100
ہر روپ تجارت ہے
ہر فرد تجارت ہے
جذبوں کی تجارت ہیں
غمگین ادائیں بھی
بے وجہ اشارے بھی
ہر چیز تجارت ہے

0
99
اِس وصلِ بے وجہ کا نشانہ بہت ہوا
اے ہجر آ، کہ ملنا ملانا بہت ہوا
ہر ایک دعویٰ میرا تھا مٹّی میں مل گیا
اک بار اُن کا مجھ کو بلانا بہت ہوا
بیزار سا، اداس سا لمحہ تھا کھِل اُٹھا
اُن کی طرف سے شکوے سنانا بہت ہوا

0
90
اس نے بنا دیا تھا مجھے اک اجات شخص
وہ جو تھا زندگی میں مری اک نوات شخص
ٹپکے تھے آنسو میرے مگر دیکھیے نصیب
سمجھانے مجھ کو آ گیا اک واہیات شخص
اک بد چلن خبیث پہ ان کو ہوا یقین
وہ جو عزیز تر تھا مجھے تا حیات شخص

0
68
ہم اپنے بچوں کے خاندانی بزرگ ہیں جو
یہ سوچتے ہیں ہماری نسلوں کا کیا بنے گا
ہنسی خوشی میں اداس ہونا پرانی اک رِیت
خدا ہی جانے ہمارے اگلوں کا کیا بنے گا

0
80
اب بھلا کون محبت کا صلہ دیتا ہے
یاں ہر اک شخص ہی امید بجھا دیتا ہے
تم کو عنوان محبت کا بنا کر کوئی
کتنی سگریٹ وہ جلاتا ہے بجھا دیتا ہے
اب کہاں زیست کو یک طرفہ رکھے گا کوئی
اب تو رانجھا بھی محبت میں دغا دیتا ہے

0
75
اب بھلا کون محبت کا صلہ دیتا ہے
یاں ہر اک شخص ہی امید بجھا دیتا ہے
تم کو عنوان محبت کا بنا کر کوئی
کتنی سگریٹ وہ جلاتا ہے بجھا دیتا ہے
اب کہاں زیست کو یک طرفہ رکھے گا کوئی
اب تو رانجھا بھی محبت میں دغا دیتا ہے

0
92
کس قدر درد کو آنکھوں میں وہ بھر جائے گا
تری گلیوں سے جو ناکام گزر جائے گا
کتنی دلدل ہے، کثافت ہے، مصیبت ہے یہاں
ترا دیوانہ تو رستے میں ہی مر جائے گا
میں نے چاہا تھا کہ بلبل کا ترنم میں سنوں
پر ابھی جانبِ صحرا یہ سفر جائے گا

0
72
وہ آئیں گے اک شب کو ،رستے کو سجا رکھنا
اُن کی بھی خبر رکھنا ،اپنا بھی پتہ رکھنا
ہر درد کی ساعت کو چپکے سے سہے جانا
آنکھوں میں ہیں جو آنسو ،وہ سب سے چھپا رکھنا
وہ آئیں گے جب ملنے ہر داغ الٹ دینا
سب اُن سے کہے جانا ،دل میں نا گلہ رکھنا

0
85
چہرے پر ہے یہ جو مسکان سجی سی عثماں
خواب میں آئی! وہی شور مچانے والی
آج کا جاگنا بےکار نہیں ہو پایا
اس کی تصویر ملی یار پرانے والی

0
3
120
وہ آئیں گے اک شب کو ،رستے کو سجا رکھنا
اُن کی بھی خبر رکھنا ،اپنا بھی پتہ رکھنا
ہر درد کی ساعت کو چپکے سے سہے جانا
آنکھوں میں ہیں جو آنسو ،وہ سب سے چھپا رکھنا
وہ آئیں گے جب ملنے ہر داغ الٹ دینا
سب اُن سے کہے جانا ،دل میں نا گلہ رکھنا

0
71
تعارف محمد عثمان حنیف عثمان حنیف کا تعلق ڈیرہ غازیخان شہر سے ہے۔ آپ نے 2019 میں سنٹر آف ایکسیلنس (بوائز) سے میٹرک مکمل کیا جہاں سر کاہش کشفی جیسے اردو کے استاد نے شاعری کی لگن دل میں بیدار کی۔ 2021 میں پنجاب کالج، ڈیرہ غازیخان سے انٹر میڈیٹ مکمل کیا۔ کالج کے دوران سر سجاد کشور سے تلمذِ فیض حاصل کرتے ہوئے شاعری کی لگن شعلہ میں تبدیل ہو گئی۔ فی الوفت محمد عثمان ICAP کے کُل وقتی طالب علم ہیں اور اسی سلسلے میں لاہور میں مقیم ہیں۔

0
89
اک وضاحت تو یار بنتی ہے
آگے پھر آپ کی ہی مرضی ہے
چند گھنٹوں کا تیرا مل جانا
ہم نے اُتنی ہی زندگی جی ہے
جوتے کھاتا ہوں اس سے میں یارو
کتنی پُر نور یہ تجّلی ہے

0
52
درد آواز بن گیا ہوگا
عشق پرواز بن گیا ہوگا
اُن کے کومل مدھر سے لہجے میں
درد اک ساز بن گیا ہوگا

0
56
بلاعنوان ،کیا کہنے!
عشق ہے ایمان، کیا کہنے!
محبت امن اور چاہت
یہی سامان ،کیا کہنے!
اُسے تم چھوڑ دو عثماں
ترا فرمان ،کیا کہنے!

0
87
کچھ اضافۂ حادثات ہو جائے
آج تھوڑی سی بات ہو جائے
کیوں ہے مقبول اُن کی ہر عادت
کچھ تو اُن کو بھی مات ہو جائے
کچھ لکیریں بنانے مَیں بیٹھوں
اور تخلیق، کائنات ہو جائے

0
77
پردہ داروں سے بات ہو جائے
گر اشاروں سے بات ہو جائے
ہم سرِ راہ مل بھی سکتے ہیں
رہگزاروں سے بات ہو جائے
گر نہیں رات کٹ رہی ایسے
کچھ ستاروں سے بات ہو جائے

0
74
حشر کے دن سا ہے ابھرا آفتاب
دیکھئے لیتے ہیں کیسا وہ حساب!
پاؤں اُس کے جل رہے ہیں دھوپ میں
وہ پری وش جو کہ ہے رشکِ سحاب
راہ تیری تَک رہا تھا دشت میں
جاگتی آنکھوں نے دیکھے کیسے خواب!

0
86
وہ لب پر دعائیں وہ منظر سہانا
کسی اور پرچے پہ نظریں جمانا
بہت دیر تک اب قلم ہے چلانا
مگر پُر سکوں بیٹھا ہے اک دیوانا
کبھی آہ بھر کے وہ دیکھے ہے پرچا
لڑا ممتحن سے ہوا خوب چر چا

0
78
کل کی شب میں پی کے سیدھا جانبِ اللہ گیا
میکدہ سے میں جو نکلا، مسجدوں نے دی اذاں
آگے ان کی میٹھی دھن میں نرم رو گفتار کے
گنگ ہے لکنت سے اب تک یارا میری تو زباں
خوبیاں عثماں تری کیا کیا کروں گا میں بیاں
بال ہیں باریش سے اور شکل ہے بالکل جواں

0
59
اب میں کہاں سے لاؤں ضمانت یا کچھ دلیل
ظاہر مرا رحیل ہے ،باطن مرا رحیل
میں اُس رقیبِ جان کی تعریف کیا کروں
اے یار ،میرے یار ہے کتنا حسیں جمیل!
قاصد نے کچھ خرابی بھی پیدا ہے کی ضرور
اتنا بھروسہ کاہے، نہیں ہے وہ جبرئیل

0
80
تین شعر (ترا نمود)
دل ہے کہ بار بار ہے کرتا تجھے سجود
شامل نہیں ہے اس میں مری عقل اور بود
میٹھی سی نرم دھن میں ہیں کتنے رباب و چنگ
یہ اُن کی گفتگو ہے کہ یا کوئی ہے سرود
میں ڈھونڈتا ہی رہتا ہوں اپنے وجود کو

0
54
تُو ہی تَو میری ہستی ہے، تُو میری کائنات
تیرے بغیر باقی سبھی کچھ ہے بے ثبات
تُو آئے گا، ملے گا، گلے سے لگائے گا
شامل ہے میری سوچ میں ہر ایک ممکنات
الفاظ ہی تھے سوچے کہ شب بیت ہی گئی
اتنا قلیل وصل تھا، اتنی قلیل رات!

0
105
اب آج تو کھلتے ہی چلے جاتے ہیں اسرار
یہ وصل کا لمحہ ہے کہ بارانیٔ انوار
میں نے تو بہت ہنس کے گلے اس کو لگایا
سب موت سے کرتے تھے مجھے یار خبردار
اک عرصہ ہے بیتا کہ نہیں اس کو ہے دیکھا
وہ مجھ سے ہے بیزار کہ میں اُس سے ہوں بیزار

0
61
نا ڈھونڈ اُن کی بزم میں کوئی سا اک مقام
ساقی کو کب دوام ہے ،مے کو ہے بس دوام
اے حسنِ کائنات کی دلکش حسیں پری
کچھ تو بتائیے گا کہ کیا آپ کا ہے نام
اس مے کو ہم نے پی کے ہے اکسیر پا لیا
کہتے ہیں لوگ پینا پلانا ہے سب حرام

0
101
انساں پرست ہوگئے ہم یار دل نواز
بھولے حجاز کیا ہے یا کیا چیز ہے مجاز
قاتل ہے میری روح کا، احساس کا مرے
سب کچھ مجھے پتہ ہے وہ کتنا ہے پاکباز
مدت ہوئی ہے یار کہ بت سے ملا نہیں
اس نے کیا ہے ملنا کہ وہ تو ہے بے نیاز

0
64
مجھے احساس میرے پَر یقیں ہے
مری دنیا وُہی کوچہ مُبیں ہے
مرا احساس ٹن مٹی تلے ہے
یوں کہنے کو مرے نیچے زمیں ہے
یقیں کامل، ہے اک پوشیدہ ہستی
اسی صورت ہی جھکتی یہ جبیں ہے

0
69
درد کچھ لادوا نہیں ہوتا
پر محبت کا کچھ صلہ نہیں ہوتا
ایک ہی بات کا جنوں ہے ابھی
کوئی اور فیصلہ نہیں ہوتا
تم زمانے سے چھپ کے پیتے ہو
کیا وہاں پر خدا نہیں ہوتا

0
86
درد کچھ لادوا نہیں ہوتا
پر محبت کا کچھ صلہ نہیں ہوتا
ایک ہی بات کا جنوں ہے ابھی
کوئی اور فیصلہ نہیں ہوتا
تم زمانے سے چھپ کے پیتے ہو
کیا وہاں پر خدا نہیں ہوتا

0
88
یہ ملنے کو اے یار جی چاہتا ہے
ترے ہتھ بنی یہ سِجّی چاہتا ہے
مُبائل ہے اس کا وُہی نوکیا
کنکشن مگر فور جی چاہتا ہے
مرا یار ہے یار پکا دِہاتی
مگر پیار اب کالجی چاہتا ہے

0
70
کبھی اک غزل تو سنا انہیں
کبھی چاہ اپنی بتا انہیں
جو ہیں روبرو وہ یوں مل گئے
تُو یہ پیار تَو نا جِتا انہیں
وہ جو روٹھے دل ہے تڑپ گیا
ابھی جا تُو جلدی منا انہیں

0
80
کتنے منظر مری روہی کے سہانے ہوتے
وہ مری طرح مرے یار دِوانے ہوتے
وہ بہاروں کا یہ موسم کہ بُلاتی تھی مجھے
جب بھی باغوں میں نئے پھول لگانے ہوتے
ہم نا ساقی تھے، نا مُلّا تھے ،نا تبریز کوئی
بزم سے چل دئے جب گانے بجانے ہوتے

0
64
مرا حکم عثمان سب کو سنا دو
کرپشن کی ہر ایک فائل جلا دو
یہ تحقیق و تدقیق پس پشت ڈالو
سکینڈل کا ہر ایک پرزہ دبا دو
قانون سے ہو بالا، اے فرزندِ اُمراء!
کوئی قتل کر لو کسی کو رلا دو

0
82
اے مرے ہمدم
مَیں نے
کتنی راتیں تھیں
بِتائیں ایسے
کہ تسلی تجھے دے کے رویا،
کتنے

0
64
زمانے میں محبت بھی
الگ تعریف رکھتی ہے۔
یہ میرے جو بھی ہیں ،عثماں
یہ اُس سب سے الگ سے ہیں
یہ یکتا، منفرد، پرآہ۔۔۔
یہ یکتائی یہی تو ہے

0
80
مزا تب ہے پنشن
لگی ہو، کہیں چائے
کی ٹھنڈی پیالی
دھری ہو ،وہ اخبار
تھامے ہوئے پڑھ
رہی ہو،

0
87
محبتوں کی راہ میں ستم سہے کرم ملا
تمام رات جاگ کر ہمیں فقط بھرم ملا
امیر بن کے دیکھ لو کہ ہے غرور کیوں ہمیں
بڑی کٹھن مسافتوں کے بعد یہ حرم ملا

0
78
مرے ہمراز ناخوش ہیں کہ خوں کو خاک کر ڈالا
محبت ہوگئی ،پھر سے گریباں چاک کر ڈالا
عجب سا ایک معما تھا وہ سعدی کی حکایت سا
جسے حل کرکے میں نے پھر اُسے بے باک کر ڈلا

0
78
وہ جو آئے تو دل پھر اچھلنے لگا
یا حبیبی حیٰی ،بھی یہ کرنے لگا
پھر وہ ظلمت مچی موت بھی ڈر گئی
بھائی ،بھائی سے عثمان لڑنے لگا

0
68
غم و درد اب سب مَیں سہنے لگا
خوشی کے بھنور میں، مَیں بہنے لگا
سبھی دکھ کہیں پر ہوں مَیں بھول آیا
اطاعت کے دریا میں رہنے لگا
نہیں میں خفا تم سے اے جانِ جاں
تری اُلفتوں کو سمجھنے لگا

0
101
نا یہ ڈنکے بجاؤ، مجھے موت آئی
نا ڈولی اُٹھاؤ ،مجھے موت آئی
نیا گھر ہے قیدِ جہنم یا جنت!
خدا ماف کردے ،مجھے موت آئی
مجھے الفتوں کے نا دن یاد آئیں
سبھی کچھ بھلا دو ،مجھے موت آئی

0
96
کسی معصوم کی عثمان اب جو فکر کرتا ہے
ہر اک ہے روٹھتا ،ہر فرد کا ایمان جلتا ہے
وہ بھی، اک وقت تھا جس دم، سبھی عظمت کے قائل تھے
مگر اب تو حقیقی عشق سے انسان ڈرتا ہے

0
85
میں نظر کی قید میں بند تھا، تُو خزاں کا مجھ سے نا پوچھ اب
یوں بہارِ حُسن سنا مجھے کہ خوشی میں اب تَو رُلا ہی دے
ہے ابھی بھی آرزو جاوداں، ہے ابھی بھی حسرتِ دل و جاں
وہ جو ہے حسینہ شبابِ گل اُسے اب تُو مجھ سے ملا ہی دے
میں ابھی بھی غمزۂ جُستجو ہوں زمانے کی گل و بُو ہے تُو
کوئی جلوہ کر، کبھی مل مجھے ،مری چاہتوں کا صلہ ہی دے

0
71
تمہیں عیدیں مبارک ہوں ہمارے خوں کو بہنے دو
جنونِ عشق و آزادی ،سبھی یہ غم تو سہنے دو
دیا ہے بیچ سورج کو ستاروں کی حمایت میں
نا روکو اب مجھے عثماں یہی الفاظ کہنے دو

0
71
اُمڈتے آنسوؤں کی بارشوں میں آہ بن جاؤں
زمانے کے حسیں لوگوں کی میں اک راہ بن جاؤں
کسی کی آنکھ لگ جائے کسی کی بات بن جائے
کسی کا نور ہو جاؤں ،کسی کی چاہ بن جاؤں

0
89
محفلِ یار اک بہانا تھا
اصل تو مِل کے مسکرانا تھا
میں نے خود ہی بتائی تھی یہ خَبَر
اب محبت کا کیا چھپانا تھا
مجھ کو جب " آپ" وہ بلاتے تھے
ہائے ہائے! کیا زمانا تھا

0
87
جس کی خاطر یہ جان واری تھی
مجھ کو وہ جان سے بھی پیاری تھی
جب وہ رخصت ہوئی تھی پہلو سے
اُس کی خود سے بھی جنگ جاری تھی
اُس کے جاتے سمے، محبت کی
کیسی آنسو سے آبیاری تھی

0
84
جب سے بچھڑا ہوں تم سے مَیں عثماں
پھر محبت سے کچھ ڈرا سا ہوں
میرے ہاتھوں میں صرف کانٹے ہیں
کون کہتا ہے مَیں ہرا سا ہوں
تم سے مَیں جب سے بچھڑا ہوں عثماں
تب سے میں تو مرا مرا سا ہوں

0
76
عشق آلودہ ہوا ہے میرا
سب ہی فالودہ ہوا ہے میرا
جب سے اِس دشتِ جنوں میں آیا
ذہن فرسودہ ہوا ہے میرا
پھر چلوں کیا اُسی دکھ کی جانب!
درد آسودہ ہوا ہے میرا

0
77
ہم تو ہیں بس دیوانا رہے
رستے میں پر صحرا رہے
محفل میں اب کیا مَیں کہوں
یہ اچھا ہے کہ پردہ رہے
وہ گائے گر میری غزل
میرا بھی پھر چرچا رہے

0
66
جب ہوس ہی ہوس نظر آئے
پھر محبت میں کیا اثر آئے
آپ کو گر سُکوں میسر تھا
کس لیے آپ پھر اِدھر آئے
آپ کہتے ہیں صبر کرتا رہوں
لے کے پہلے ہی کتنی ہم،عمر آئے

0
89
اب تیری محبت کا مَیں اقرار کروں گا
اقرار کروں گا سرِِ بازار کروں گا
اب جو بھی ہو الفت کا جُنوں طاری ہے مجھ پر
چاہت کا مَیں اظہار سرِ دار کروں گا
اب خاک مری تک بھی نا پہنچے گا زمانہ
اب تیز زمانے سے مَیں رَفتار کروں گا

0
85
یہ اچھی سی یارو!ہوا چل رہی ہے
ابھی کچھ سلام و دعا چل رہی ہے
کب انکار ہے یار پینے سے مجھ کو
مے نُوشی مری، باخدا چل رہی ہے
یہ قاصد بھی ہے یاں کچوکے لگائے
عجب یار رسمِ جفا چل رہی ہے

0
55
دل کی بستی سے دھواں کیسا ہے
موت کا یار سماں کیسا ہے
تم تو جھوٹے سے ہو Fake انساں
اب بتاؤ یہ بیاں کیسا ہے
تم کو معلوم کہاں ہے عثماں
میرے خوابوں کا مکاں کیسا ہے

0
72
مجھ سے ملنے کو جب بھی وہ آئی
ساتھ اپنے وہ لائی تنہائی
مجھ سے کہتی تھی عشق کیسا ہے
میرے حصے اگر ہے رسوائی
کیوں ہو رہتے یہاں وِرانے میں
کیا تمنا تمہیں یہاں لائی

0
85
تم ہم اب سے بیلی ہوگا
اِس کا گواہ یہ چنبیلی ہوگا
مجھ سے کہا یہ خان نے رو کر
اُس کا بھی تو سہیلی ہوگا
سُن کے اُکاڑا چونک ہے پڑتا
یار کا شہر حویلی ہوگا

0
99
تب سارے مَرگل روئے تھے
جب میرے آگل روئے تھے
اُس رات گئے ہم ساتھ میں تھے
وہ جس شب بادل برسے تھے
ہے ظالم روگ محبت کا
اِس دشت میں کاجل روئے تھے

0
90
تُجھ کو اے یار کیا، کیا غم ہے؟
تیرا کردار گر مُنظّم ہے
وہ اگرچہ حسین و خوبرو سی
پر خدا اُس سے تو مقدم ہے
گر میسر ہے تجھ کو صحبتِ خیر
پھر بھلا کیسا یار ماتم ہے

0
75
اِن ستاروں میں کچھ ضیا کیوں ہو
اب یہاں کوئی ،با وفا کیوں ہو
تم نے خود ہی کہا "نکل جاؤ"
اب بلانے کی پھر صدا کیوں ہو
کہہ گئے اپنے مرشدِ گورکھ
عشق توفیق ہے سزا کیوں ہو

0
73
جس کو دیکھو وہی سُلگتا ہے
اب محبت بھی کون کرتا ہے
تیری یادوں میں ہر گزرتے دن
دل یہ بُجھتا ہے روز جلتا ہے
واہ رے!عشق کیا کرامت ہے
اب تو ہر کوئی جملے کَستا ہے

0
52
کتنے بکھرے تھے منارے میرے
جب نا سمجھے وہ اشارے میرے
جب محبت کا بتایا اُسے یار
کیا کہا اُس نے تھا بارے میرے
یہ بھلا صنعتیں کس کام کی ہیں
وہ نہیں آتی ادارے میرے

0
87
کر رہا ہوں تجھ سے جو فریاد سُن
آ جا تُو بھی، عشق کی رُوداد سُن
رحم کوئی بھی نا ہوگا مجھ سے اب
اُلٹا لٹکاؤں گا اے صیّاد سُن
تجھ کو تو ہے اب شکستِ دائمی
اوئے کیدو کی خراب اولاد سُن

0
79
بات کرتے ہیں وفاداری سے
دھوکا ملتا ہے وفاداری سے
گھر اچانک نہیں کوئی لُٹتا
مجھ کو کھٹکا تھا طرفداری سے

0
77
بس یہی ہے گزارشات کا محور
اُسے پانا مری حیات کا محور
وہ جو اے یار تیز بولتی ہے
وُہی ہے میری ذات کا محور
ساری شب اُس کو سوچتا ہوں مَیں
بس یہی کچھ ہے رات کا محور

0
135
دوستوں سے بگاڑ کیا کرنا
پیدا کوئی دراڑ کیا کرنا
کون آئے گا دشتِ وحشت میں
بند اپنا کِواڑ کیا کرنا
وہ متاثر نا ہو سکی ہے جب
سَر کوئی پھر پہاڑ کیا کرنا

0
72
نظروں کا تیر بس لگا کیا تھا
شور پھر دل میں اک مچا کیا تھا
اک کثافت بھری تھی لہجوں میں
جانے اس کی وجہ بنا کیا تھا
تم تو لڑنے پہ تھے اتر آئے
کچھ بتاؤ بھلا ہوا کیا تھا

0
107
اُس سے بھی ،بے دلی ہے کیا؟
تم کو دیکھے سے وہ ہنسی ہے کیا!
تم اس سے جا کے کیوں نہیں ملتے؟
دل جلانے سے وہ ملی ہے کیا!
آپ جلدی سے دیں مرا تحفہ
کیا ہے یہ! کوئی گھڑی ہے کیا؟

0
74
مرے آنسو ابھی اے یار بہنے دے
یہ غم مجھ کو اکیلے یار سہنے دے
طلب تصویرِ جاناں کی ہوئی تھی اک
کہا اس نے کہ ایسے کام رہنے دے
محبت ، اک انوکھا تجربہ تھا یہ
کہا اس نے یہ آنسو یار بہنے دے

0
120
اب کس کو اپنی زیست کا عنواں کرے کوئی
اب کیسے اُن سے وصل کا ساماں کرے کوئی
اب تو امیدِ وصل ہے حسرت تمام شُد
اب کس لیے کو یار چراغاں کرے کوئی
خالی ہے اپنی ہنڈیا، کھانے میں کچھ نہیں
اب کس طرح رقیب کو مہماں کرے کوئی

0
55
منھ پہ چپ وہ ہوا تو ہوتا ہے
دل میں اک پَر گلہ تو ہوتا ہے
گرچہ منزل کی کچھ خبر نا ہو
غم ہو کیوں!راستہ تو ہوتا ہے
بند جتنا کرے وہ دروازہ
پردہ کھڑکی کا، وا تو ہوتا ہے

0
77
محبت اپنے جوبن کو رہی تھی
خوشی ملنے کی اتنی ہو رہی تھی
میں جب گاؤں کو پہنچا تھا لہور سے
وہ بڑھیا تب پنیری بو رہی تھی
وہ تب اس کے تو آنسو تھے چمک آئے
مرے زخموں کو وہ جب دھو رہی تھی

0
105
وہ مرے دل کی طرف کرکے سفر آئے ہیں
خواب آنکھوں میں عجب آج اتر آئے ہیں
اِس چمن میں اُنہیں ہنستے ہوئے جب سے دیکھا
رنگ کلیوں پہ مسرت کے بِکھر آئے ہیں
اب مہکتا ہوا پاؤ گے ہمارا یہ بدن
ہم تری یاد کی گلیوں سے گزر آئے ہیں

0
67
کب تلک یوں معاف ہی کیا جائے
بدلہ پورا ہی اب لیا جائے
کب تلک مصلحت لبادہ رہے
کیوں نا ظالم سے اب لڑا جائے
جو کبھی ہو سکا نہیں ممکن
کیوں نا وہ کام اب کیا جائے

0
78
اب آج رو پڑا ہے وہ کیا اس کو درد ہے
تلقین و وعظِِ صبر کہ تو یار مرد ہے
گھر کا ہے کُل اثاثہ وہ کُل کائنات ہے
کہنے کو باپ میرا فقط ایک فرد ہے
بیٹے کے فیصلے پہ خوں سب نِچڑ چلا یہ
چہرہ نحیف شخص کا اب آج زرد ہے

0
64
یار تجھ سے تو مَیں بیزار نہیں ہوسکتا
تیرے رستے کی مَیں دیوار نہیں ہو سکتا
لوگ کہتے ہیں کہ دیدار نہیں ہو سکتا
پر زمانہ کبھی دیوار نہیں ہو سکتا
اس کا عاشق تو نکما ہے وہ بیکار سا شخص
پر وہ عاشق ہے تو بے کار نہیں ہو سکتا

0
92
عجب آج ان کے کرم ہو رہے ہیں
کہ مَیں اور وہ آج ہم ہو رہے ہیں
وہ جلوہ دکھاتے ہیں پلکیں جھکا کر
یہ کیسے ستم اے صنم ہو رہے ہیں
ترے ساتھ گزرے تھے لمحے جو خوش خوش
ترے بعد وہ سب الَم ہو رہے ہیں

0
87
تم اس کے ہو حبیب مقدر کی بات ہے
ہم تم ہوئے رقیب مقدر کی بات ہے
وہ مجھ سے ایسے روٹھی کہ پھر نا منا سکا
وہ نا ہوئے نصیب مقدر کی بات ہے
پلّے مرے نہیں ہے کوئی دولت و زمیں
پیدا ہوا غریب مقدر کی بات ہے

0
98
قاصد کے اُس کلام کے خنجر ہی لے چلیں
ان سے چھپا کے غم کے سمندر ہی لے چلیں
اب وہ کہاں پلائے گی چائے مجھے کبھی
چل ذہن میں بس ایک یہ منظر ہی لے چلیں
بیٹھے رہے ہیں برسوں اسی در کے سامنے
شاید وہ ایک دن کو مجھے گھر ہی لے چلیں

0
81
سب کو ہنس ہنس کے دئے جاتے ہیں پیغام
اور مری صدا کو ہی روک لیا جاتا ہے
اس کی سہیلی سے ملا تو یہ پوچھوں گا
اس سے ملانے میں تیرا کیا جاتا ہے

0
101
شُشش ایسے نا پکارو یوں نام نا لو ان کا
نام لینے سے عبادت میں خلل پڑتا ہے
میں ہوں خود دور ہوا اس سے بہ حکمِ دل و جاں
کیوں ہوا سوچ کے اب یار مَلل پڑتا ہے

0
114
سب دیکھتے واں میری روانی و بلاغت
گر سامنے وہ صاحبِ تقریر نا ہوتا
جو سنتا ہے میرا غم، ہے رونے وہ لگتا
اے کاش کہ یہ عشق جہاں گیر نا ہوتا

0
99
سب رسم و راہ رسمی
ہر شاہ و جاہ چشمی
یہ عشق ہے دِوانہ
ہے یہ فیصلۂ حتمی

0
72
ہم خراب حالوں کو نسبت اُس گلی سے ہے
بے وجہ سی اک ہم کو رغبت اُس گلی سے ہے
پھر سے چل پڑے ہیں ہم کوئے یار کی جانب
ہے قبول وہ سب جو، تہمت اُس گلی سے ہے

0
70
ہم جو ہنستے ہیں، مسکراتے ہیں
سب ہی حیرت میں ڈوب جاتے ہیں
اُس شبِ غم کے لمحے جب مجھکو
یاد آتے ہیں، پھر ستاتے ہیں
ہم حسیں خوشگوار لمحوں میں
وسوسوں کے شجر بوئے جاتے ہیں

0
88
اب میں سونا چاہوں گا ماں
اچھے سے رونا چاہوں گا۔
ایک غبار ہے جسم و جاں میں
گھائل کرتا جاتا ہے جو،
آنسو چیخ رہے ہیں اندر
کوئی قلق ہے کھائے جائے

58
کون ہے آشنا ملنگوں کا
درد ہے لادوا ملنگوں کا
ہے محبت کا اک بھکاری یہی
تیشۂ التجا ملنگوں کا
ہر کوئی ہے مِرے یہ زخم بتائے
بس خدا آسرا ملنگوں کا

0
80
مجھے تم سے محبت ہو چکی تھی
تمہیں مجھ سے عداوت ہو چکی تھی
یہ قصہ جب مکمل ہو چکا تو
تری جانب خیانت ہو چکی تھی
یہ دل ہے چیخ کر رویا بہت سا
خبر تک سب شرارت ہو چکی تھی

0
89
اس شخص کے افسانے سناؤ نا کچھ تم
کیوں مر میَں مٹا وجۂ غَدر پوچھ رہا ہوں
میں خود بھی تو احسنِ تقویم ہوں تو پھر
وہ کون ہے میں جس کی خبر پوچھ رہا ہوں

0
79
سَڈے ہَتھ جو یار سَکُوٹَر آئے
اُکوں شہر لہُور گھما آئے
اساں پیسہ دی نئی فکر کِتی
بس یار کوں P.C رَلا آئے
اُندی نِکڑی نِکڑی خوشیاں تے
اساں پُھل دے ہار پَوا آئے

1
221
جب ماں پوچھتی ہے "تم ٹھیک ہو بیٹا""آنکھیں ایسی کیوں ہو گئی ہیں"اور الوداع کرتے ہوئے کہتی ہے "اپنی صحت کا خیال رکھنا""زیتون لیتے جاؤ، سر پہ مالش کرنا روز ۔"ان باتوں کی شدت اور محبت کی گہرائی سامنے کھڑے بیٹے کو( جو کسی لڑکی کے لیے آنسو بہاتا ہے ) زندہ درگور کر دیتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ انساں مرا ہوا ہو۔ یہ کشمکش آخر خود کیفیتی کی ایک ایسی زندگی سے روشناس کراتی جو بس خود اذیتی کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ بھلا کیوں!کیوں اس کرب کے باوجود وہ اپنے سامنے موجود مقدس ہستی کو اگنور کرتے ہوئے مسلسل اسی کے بارے سوچا جا رہا ہوتا ہے جس کے ہجر کی سوچ اسے شب کو جاگنے پہ مجبور کیے دیتی ہے۔ وہ ماں تو نہیں، پھر ماں سے زیادہ توجہ کی مستحق کیونکر ہو گئی!

0
70
تم نے پہلے مجھے غلط تولا
پھر مری سوچ کے الٹ بولا
خود سُپردی تو لاکھ ہے جانم
حق مہر تو فقط ہے اک تولہ
مل سہی آ کے چاند راتوں میں
پھر سنوں گا کہ "میں ترا ڈھولا"

0
95
کر لیے اب جو رابطے ان سے
بڑھ گئے یار سلسلے ان سے
اپنوں کی چشمِ نم کا پردہ رہا
سو ہوئے ختم سابقے ان سے
ان کے ملتے ہی بات جانے کی
کیسے رکھتا میں لاحقے ان سے

0
99
تھا میں اڑنے لگا اک اڑان
سے جو تھی وقت کی گود میں
گود میں دلنشیں سی لگی
پھر حقیقت عیاں ہو گئی
اور ذلت کی پرچھائیاں
چھا گئیں تب پتہ یہ چلا

0
111
تھا میں اڑنے لگا اک اڑان
سے جو تھی وقت کی گود میں
گود میں دلنشیں سی لگی
پھر حقیقت عیاں ہو گئی
اور ذلت کی پرچھائیاں
چھا گئیں تب پتہ یہ چلا

0
86
میں ترے دشت میں برساؤں گا ابرِ ٹھنڈک
تو مرے دشت میں آ کے مجھے سینے سے لگا
دونوں مل بیٹھ کے روئیں گے برابر جاناں
پھر جو مسکائیں گے اتنا کہ لگے سب ہے بچا

0
79
مجھ کو ملی ہے کیسی یہ بے کیف زندگی
کس سے کروں میں پیار، نہیں کوئی آدمی
اب تو ہے یار مجھ سے محبت بھی چِھن گئی
اب میں کہاں سے لاؤں وہ پہلی سی تازگی
بیٹھی ہے سامنے جو دغا باز چھوکری
ہاں یار غمزدہ ہے وہ، دکھ ہے مجھے یہی

0
111
یہ قرار آئے گا آہستہ سے
بس ذرا یاد سنبھالے رکھنا
وہ ہے نظروں میں سمایا سا بت
سانچہ انسان کا ڈھالے رکھنا

0
83
تری یادیں جو آتی ہیں ،محبت اب بھی باقی ہے
تری فرقت ستاتی ہے، محبت اب بھی باقی ہے
زمانے کے بہت دردوںں ،سبھی غمزوں کا مارا ہوں
میں پھر بھی لَو لگاتا ہوں، محبت اب بھی باقی ہے
سبھی الفاظ سوچوں میں بہت ہی خوبصورت ہیں
حقیقت سب بھیانک ہے ،محبت اب بھی باقی ہے

109
میرے احساس کی دنیا پہ تمسخر نہ کرو
میں تو الفاظ کو جذبوں کی سِپر دیتا ہوں
اپنے افکار کی وسعت کو بڑھانے کےلیے
ساری شب جاگ کے میں خونِ جگر دیتا ہوں