سوچ اگر باہر آ جائے اگر ہم دل کے خیالات جان لیں ایک دوسرے کے تو اپنے ہوش کھو بیٹھے کیونکہ اکثریت نے برائی کو جگہ دی رکھی ہے نفرت کو بغض کو کینہ کو یہ تو خدا کا ظرف ہے وہ سب جانتا ہے اور خاموش رہتا ہے ۔ دلوں کے حال تو اللہ جانتا ہے۔اور وہی ذات ہے جو یہ جاننے کا حق رکھتی ہے ہر شخص میں برائیاں ہوتی ہیں اور کیا پتہ آپ ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہوں جن کی اچھائی برائی پہ حاوی رہتی ہے۔?
پہلے روح کو پیدا کیا گیا اور پھر روح کے سانچے کے مطابق انسان کا جسم بنایا گیا اور پھر اس میں وہ روح ڈالی گئی۔روح سمجھیے نا کہ روح ہے کیا روح تو اللہ کا حکم ہے اللہ کا حکم وقت مقررہ تک جسم میں موجود رہتا ہے۔اگر صرف جسم کو اتارا جاتا تو اس حیات کا مقصد ہی کیا ہونا تھا یہ حیات تو امتحان ہے کہ اللہ کے احکام پورے کرو
اس قوم کے باب حکمرانی میں ایک دور مشرف کا دور ۔۔۔ تقریباً پندرہ برس قبل۔ایک ایسا دور جس میں Raymond Devis جیسا دشمن ہاتھ آنے کے باوجود رہا ہو کے واپس چلا جاتا ہے۔ Raymond Devis ایک ایسا ملک دشمن ایجنٹ جو بلوچستان کو تباہ و برباد کرنے کے اراداہ سے آیا تھا۔ جو موساد، ایم نائن اور سی آئی اے کا مہرہ تھا۔ قوم چیختی رہی، چلاتی رہی، اپنا درد، اپنی آہ اور نالاں نارسا بلند کرتے کرتے ٹوٹ کر بکھر گئی کہ Raymond Devis کو واپس نہ کیا جائے۔ مگر امریکہ کے غلام حکمرانوں نے رات کے اندھیرے میں دنیاوی قوت کے حامل امریکہ( جسے وہ دیوتا مانتے تھے) کے حوالے کیا کہ یہ قوم اپنے جذبات میں ان دو ٹکے کے اشاروں پہ ناچنے والے غلام حکمرانوں کے لیے خطرہ نہ بنے۔ آج پندرہ برس بعد، اسی سر زمین پہ ایک دشمن ایجنٹ کو رہا کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ایک ایسے ملک کا ایجنٹ جس کے ساتھ قیام مملکت سے ہی نہ صرف دشمنی رہی بلکہ چار جنگیں پہ لڑی جا چکی۔ ایک ایسا جو بلوچستان کو خانہ جنگی کا مرکز بنا کے ملک کو دہشت گردی میں جھونکنے آیا تھا۔ پندرہ برس کے اندر یہ قوم، ملت ، ریاست اتنی بکھر گئی کہ آج یہ ازلی دشمن کے آگے جھک گئی۔آج یہ
غرناطہ سقوط غرناطہ وہ سیاہ باب وہ کرب وہ احساس میں وہاں نہیں تھا۔ غرناطہ پہ لٹیروں نہ میرے پیدا ہونے 5 یا 6 سو سال پہلے قبضہ کیا۔ مگر آج بھی سقوط غرناطہ کا خیال آتا ہے تو دل چیخ اٹھتا ہے۔ اور پھر احساسات کا تسلسل جب بنگلہ دیش تک پہنچتا ہے تو روح کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔آج عیسائی ریاستوں کی فلاح کی بات کرنے والے ظالمو!تاریخ پڑھ لو ۔عیسائیت کی نرم دلی اور منظم پن کی دلیلیں دینے والوایک دفعہ بس ایک اندھیری رات کے مسافر پڑھ لونسیم حجازی کی کتاب کلیسا اور آگ کا مطالعہ کر لو۔اگر تم چیخ نہ اٹھو، اگر تمہارے جسم تھرتھرا نہ جائیں۔ اگر تہماری روح کانپ نہ جائے۔تو اپنی ضمیر کی خبر لینا۔ اگر تاریخ کے ان حقائق کو جان لینے کے بعد بھی تمہاری آنکھیں نہ کھلیں ، تمہارے جذبات تمہیں پر سکون رہنے دیں ۔ تو اس بات کا یقین کر لینا کہ تم مردوں سسے بد تر ہو۔ تمہارے ضمیر کب کے مر چکے ہیں۔ تمہاری انسانیت کا قلعہ قمع ہو چکا ہے۔ کیوں آخر سبق نہیں لے رہے ہم تاریخ سے۔ سقوط غرناطہ سے تاریخ کے اندوہناک باب کا آغاز ہوا ۔ وقت دوڑتا گیا۔ یہ.قوم ۔ یہ ملت اپنے ضمیر کھو رہی۔ سقوط بغداد ہوا۔ اس قوم میں شعور کی چمک
مسکراہٹآج میری ملاقات ایک برخوردار سے ہوئی۔ وہ امتحان گاہ کے دروازے پہ اترے تو دروازے کی جانب دیکھ کے مسکرانے لگے۔ پھر تھوڑا سنجیدہ ہوئے اور اندر داخل ہوئے۔ اندر داخل ہوتے ہی بے اختیار مسلسل مسکرانے لگے۔ خود ہی خود مسکرا رہے تھے۔ ایسے تھا جیسے وہاں ان کا کوئی شناسا نہ ہو اور انہیں کسی کی موجودگی کا پتہ نہ ہو۔ امتحان کے ہال میں داخل ہوئے تو مسکرانے لگے۔ ممتحن نے موبائل پہ اعتراض کیا تو رائٹنگ میز پہ موبائل آف کرکے رکھتے ہوئے ممتحن کو دیکھے گئے اور ایسے مسکراتے رہے کہ ممتحن کشمکش کا شکار ہو گیا۔ جوابی کاپی دی گئی تو ہدایات پڑھے بغیر پہلا صفحہ فِل کیا۔ جس میں رسم الخط کی غلطی ہوگئی۔ جب غلطی معلوم ہوئی تو بے اختیار مسکرانے لگے۔ قریب ایک امتحان گزار بہت فرساں نظر آ رہا تھا اس کی حالت دیکھ کے وہ مسکرا دیئے جیسے کہ محظوظ ہوئے ہوں۔ مسکراتے ہوئے اپنے ہاتھ مسلے تو اندازہ ہوا، ہاتھ پسینہ ، پسینہ ہیں۔ اپنی حالت کا یہ اندازہ ہوتے ہی وہ زندہ دلی سے مسکرائے۔ ایک خاتون کو اپنی مطلوبہ جگہ نہیں مل رہی تھی۔ وہ طائرانہ نظر سے اُسے دیکھے گئے۔ طبیعت کے برعکس مسلسل اسے دیکھنے لگے۔محترمہ نے ہر ایک سیٹ چ
تعارف محمد عثمان حنیف عثمان حنیف کا تعلق ڈیرہ غازیخان شہر سے ہے۔ آپ نے 2019 میں سنٹر آف ایکسیلنس (بوائز) سے میٹرک مکمل کیا جہاں سر کاہش کشفی جیسے اردو کے استاد نے شاعری کی لگن دل میں بیدار کی۔ 2021 میں پنجاب کالج، ڈیرہ غازیخان سے انٹر میڈیٹ مکمل کیا۔ کالج کے دوران سر سجاد کشور سے تلمذِ فیض حاصل کرتے ہوئے شاعری کی لگن شعلہ میں تبدیل ہو گئی۔ فی الوفت محمد عثمان ICAP کے کُل وقتی طالب علم ہیں اور اسی سلسلے میں لاہور میں مقیم ہیں۔
اک وضاحت تو یار بنتی ہے |
آگے پھر آپ کی ہی مرضی ہے |
چند گھنٹوں کا تیرا مل جانا |
ہم نے اُتنی ہی زندگی جی ہے |
جوتے کھاتا ہوں اس سے میں یارو |
کتنی پُر نور یہ تجّلی ہے |
وہ لب پر دعائیں وہ منظر سہانا |
کسی اور پرچے پہ نظریں جمانا |
بہت دیر تک اب قلم ہے چلانا |
مگر پُر سکوں بیٹھا ہے اک دیوانا |
کبھی آہ بھر کے وہ دیکھے ہے پرچا |
لڑا ممتحن سے ہوا خوب چر چا |
کل کی شب میں پی کے سیدھا جانبِ اللہ گیا |
میکدہ سے میں جو نکلا، مسجدوں نے دی اذاں |
آگے ان کی میٹھی دھن میں نرم رو گفتار کے |
گنگ ہے لکنت سے اب تک یارا میری تو زباں |
خوبیاں عثماں تری کیا کیا کروں گا میں بیاں |
بال ہیں باریش سے اور شکل ہے بالکل جواں |
غم و درد اب سب مَیں سہنے لگا |
خوشی کے بھنور میں، مَیں بہنے لگا |
سبھی دکھ کہیں پر ہوں مَیں بھول آیا |
اطاعت کے دریا میں رہنے لگا |
نہیں میں خفا تم سے اے جانِ جاں |
تری اُلفتوں کو سمجھنے لگا |
جب ماں پوچھتی ہے "تم ٹھیک ہو بیٹا""آنکھیں ایسی کیوں ہو گئی ہیں"اور الوداع کرتے ہوئے کہتی ہے "اپنی صحت کا خیال رکھنا""زیتون لیتے جاؤ، سر پہ مالش کرنا روز ۔"ان باتوں کی شدت اور محبت کی گہرائی سامنے کھڑے بیٹے کو( جو کسی لڑکی کے لیے آنسو بہاتا ہے ) زندہ درگور کر دیتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ انساں مرا ہوا ہو۔ یہ کشمکش آخر خود کیفیتی کی ایک ایسی زندگی سے روشناس کراتی جو بس خود اذیتی کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ بھلا کیوں!کیوں اس کرب کے باوجود وہ اپنے سامنے موجود مقدس ہستی کو اگنور کرتے ہوئے مسلسل اسی کے بارے سوچا جا رہا ہوتا ہے جس کے ہجر کی سوچ اسے شب کو جاگنے پہ مجبور کیے دیتی ہے۔ وہ ماں تو نہیں، پھر ماں سے زیادہ توجہ کی مستحق کیونکر ہو گئی!