| کتنے منظر مری روہی کے سہانے ہوتے |
| وہ مری طرح مرے یار دِوانے ہوتے |
| وہ بہاروں کا یہ موسم کہ بُلاتی تھی مجھے |
| جب بھی باغوں میں نئے پھول لگانے ہوتے |
| ہم نا ساقی تھے، نا مُلّا تھے ،نا تبریز کوئی |
| بزم سے چل دئے جب گانے بجانے ہوتے |
| مجھ کو معلوم نہیں ایسا جنوں ہے کیونکر |
| ان سے ملنے کو ہیں یاں جوتے گھسانے ہوتے |
| ہم ملیں گے کبھی سرِ راہ کہیں پر اک دن |
| خواب آنکھوں نے ہیں کتنے یوں بسانے ہوتے |
معلومات