ملا اس سے میں جب جا کے |
تو ایسا ہے لگا مجھ کو |
کہ وہ میری شناسا ہے |
کئی صدیوں کی پیاسی ہے |
وہ مجھ کو ڈھونڈتی بھی ہے |
مگر یہ تو عیاں ہے نا |
حقیقت وہ سمجھتی ہے |
"محبت جرم ہے جاناں!" |
محبت ایک رشتہ ہے |
مگر رشتہ بنانے میں |
بہت ایقان لازم ہے۔ |
محبت ایک رشتہ ہے |
تو پھر یہ بے قراری کیوں، |
یہ اتنی بے سواری کیوں! |
محبت تو بہت عرصہ |
میں گُھلتی ہے، بہت لمبی |
مسافت بعد ملتی ہے |
یہی منزل،بہت ایفاء، |
وفا کے بعد ہے ملتی۔ |
وفا کے راستے میں تو |
بہت کانٹے سے چبھتے ہیں |
الگ ہی جنگ ہوتی ہے |
"طوالت سے بھری جاناں!" |
میں یہ سب سوچتا بس جا |
رہا تھا جب مرے اندر |
کی خاموش اک پکار آئی |
"محبت تو بشارت ہے |
جو لمحے کے کسی حصے |
میں مل جائے، محبت کو |
تو برسوں کی کوئی گودی |
کہاں لازم ہے اے عثماں! |
محبت لمس فوری ہے |
یہ لمحوں کی عبادت ہے |
محبت وقت کب لیتی، |
یہ بس فوراً لپٹتی ہے |
یہ فوراً چوم لیتی ہے۔" |
معلومات