رازداں حق کا طلب گار ہوا ہے
کیا ہی اچھا سا وفادار ہوا ہے!
وہ تو ہر وقت مرا دوست رہا تھا
یہ تو میں ہوں کہ جو بیزار ہوا ہے
اس کی ہر بات کو بیکار سا جانو
کب سے یہ وصل کا حقدار ہوا ہے
رازداں: ہم نے چھڑائی ہے محبت
ہائے! کیا ہم پہ یہ ایثار ہوا ہے
ہم نے تو رسمِ وفا خوب نباہی
ہاں! یہ عثمان ہے ، غدار ہوا ہے

0
65