ہے مشقِ سخن جاری ، سی۔اے کی اذیت بھی
دونوں میں تلاطم ہے ، دونوں میں مشقت بھی
نا پیار میں کامل ہوں ، نا علم میں اکمل ہوں
بے چین طبیعت ہے ، دو طرفہ ہزیمت بھی
نا گھر میں سکوں کوئی ، نا دشت میں راحت ہے
آوارہ جنوں دل ہے ، بے فیض طبیعت بھی
دل آہ کا پیمانہ ، جاں روز سلگتی ہے
افسانۂ ہستی ہے میری یہ محبت بھی
نا ظرف میں وسعت ہے ، نا قلب میں ہمت ہے
ہے اِس سے جدا لیکن یہ عشق کی نیت بھی
رسوا میں ہوا یارو اُس کوچۂ دلبر میں
پھڑکی تھی رگِ جاں بھی ، غیرت بھی ، حمیت بھی
عثمان پہ کیا بیتی کیوں یوں ہے وہ الجھا سا
جو شعر سناتا ہے شاید ہوں حقیقت بھی

0
64