اب کس کو اپنی زیست کا عنواں کرے کوئی
اب کیسے اُن سے وصل کا ساماں کرے کوئی
اب تو امیدِ وصل ہے حسرت تمام شُد
اب کس لیے کو یار چراغاں کرے کوئی
خالی ہے اپنی ہنڈیا، کھانے میں کچھ نہیں
اب کس طرح رقیب کو مہماں کرے کوئی
اجڑے سے اس چمن پہ ہے سایہ خزاں کا یار
اے کاش !اس وطن کو گلستاں کرے کوئی
جب دشت میں بھی حسرتِ دل ہے سنبھالنی
پھر اپنے گھر کو کس لیے ویراں کرے کوئی
روئے ہیں زار و زار، اداسییٔ دل پہ ہم
اب تو بتا کہ کتنے کو طوفاں کرے کوئی
گر اس کو ہے جنون کا عنوان چاہئے
عثمان کیوں نا چاک گریباں کرے کوئی

0
55