ارے داستاں اک سنو گے
سناؤ بھلا آج ایسا بھی کیا ہو گیا ہے
ارے کیا بتاؤں سہانی فضاؤں میں رم جھم کا منظر ۔ ارے تم نے باہر نکل کرکے دیکھا ہے ؟ کتنا حسیں آسماں ہے
نہیں میں تو بستر پہ لیٹا گھٹن پا رہا ہوں
ارے تف ہے تجھ پر۔
چلو خیر آگے سنو اب
سناؤ سناؤ
تھرکتے ہوئے سازِ باراں میں میرا بدن گو لچکتے ہوئے آج کالج کو پہنچا
وہاں بھاپ اڑاتی ہوئی گرم چائے کی چسکی
ارے کیا مزہ تھا
چلو اب کے آگے کہو کیا ہوا پھر
جماعت کے کمرے میں داخل ہوا جب تو کیا دیکھتا ہوں
وہ کمرے سے نکلی
مرے سامنے ۔۔۔ میں نے دیکھا
وہ نکلی تھی کمرے سے ۔۔ ہاں ۔۔ میں نے دیکھا
بھلا کس کو دیکھا
وہی جس کی فرقت میں برسوں سے یہ جسم و جاں جل رہا ہے
وہی جس کی آواز اب بھی سماعت کی مردہ رگوں میں لہو ڈالتی ہے
وہی جس کی آنکھوں کے بَن کی اداسی سے میں پورے بارہ مہینے ہی وحشت سرا میں پھرا ہوں
وہی جس کی ہاتھوں کی مخروط دنیا میں میری بناوٹ کی تجرید کا امتحاں ہو چکا ہے
وہی جس کی تصویر کو دل سنبھالے ہوئے ہے مگر ذہن سے جو نہاں ہو چکی ہے
تحیر میں ڈوبا
بھلا وہ ۔۔۔
۔۔۔ وہی انتسابِ سخن ۔۔۔ میری ساری متاعِ جنوں ۔۔ وہ وہی تھی
نہیں ایسا ممکن نہیں ہے
یقیناً تمہیں کوئی دھوکہ ہوا ہے
نہیں وہ وہی تھی ۔۔۔۔ یقیناً وہی تھی ۔۔ اسے میں نے دیکھا
یقیناً تمہیں وہم نے آ لیا تھا
نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے ۔۔
تو پھر کس طرح ہے
مری بات سن کے وہ چپ ہو گیا
وہ شاید وہی تھی یا شاید نہیں تھی
وہ شاید ۔۔۔۔

0
19